(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع، عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذهب إلى قباء يدخل على ام حرام بنت ملحان فتطعمه، وكانت ام حرام بنت ملحان تحت عبادة بن الصامت، فدخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فاطعمته وجلست تفلي راسه، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم استيقظ وهو يضحك، قالت: فقلت ما يضحكك يا رسول الله؟ قال:" ناس من امتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله، يركبون ثبج هذا البحر، ملوك على الاسرة"، او مثل الملوك على الاسرة، شك إسحاق، فقلت: يا رسول الله ادع الله ان يجعلني منهم فدعا لها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم نام، وقال الحارث: فنام ثم استيقظ فضحك، فقلت له: ما يضحكك يا رسول الله؟ قال:" ناس من امتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله، ملوك على الاسرة او مثل الملوك على الاسرة"، كما قال في الاول، فقلت: يا رسول الله ادع الله ان يجعلني منهم قال:" انت من الاولين" فركبت البحر في زمان معاوية، فصرعت عن دابتها حين خرجت من البحر فهلكت". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ إِلَى قُبَاءَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ، وَكَانَتْ أُمُّ حَرَامٍ بِنْتُ مِلْحَانَ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَأَطْعَمَتْهُ وَجَلَسَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ، مُلُوكٌ عَلَى الْأَسِرَّةِ"، أَوْ مِثْلُ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ، شَكَّ إِسْحَاق، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَدَعَا لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَامَ، وَقَالَ الْحَارِثُ: فَنَامَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ فَضَحِكَ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مُلُوكٌ عَلَى الْأَسِرَّةِ أَوْ مِثْلُ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ"، كَمَا قَالَ فِي الْأَوَّلِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ قَالَ:" أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ" فَرَكِبَتِ الْبَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ فَهَلَكَتْ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قباء جاتے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے یہاں بھی جاتے، وہ آپ کو کھانا کھلاتیں۔ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کے سر کی جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں۔ آپ سو گئے، پھر جب اٹھے تو ہنستے ہوئے اٹھے، کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟ آپ نے فرمایا: ”(خواب میں) مجھے میری امت کے کچھ مجاہدین دکھائے گئے وہ اس سمندر کے سینے پر سوار تھے، تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ لگتے تھے“، یا تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں جیسے لگتے تھے۔ (اس جگہ اسحاق راوی کو شک ہو گیا ہے (کہ ان کے استاد نے «ملوك على الأسرة» کہا، یا «مثل الملوك على الأسرة» کہا)۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے بھی انہیں لوگوں میں سے کر دے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرما دی، پھر آپ سو گئے۔ (اور حارث کی روایت میں یوں ہے۔ آپ سوئے) پھر جاگے، پھر ہنسے پھر میں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! آپ کے ہنسنے کی وجہ کیا ہے؟ آپ نے (جیسے اس سے پہلے فرمایا تھا) فرمایا: ”مجھے میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے دکھائے گئے وہ تختوں پر بیٹھے بادشاہ تھے، یا تختوں پر بیٹھے بادشاہوں جیسے لگتے تھے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! دعا فرمائیے کہ اللہ مجھے بھی انہیں لوگوں میں شامل فرمائے، آپ نے فرمایا: تم (سمندر میں جہاد کرنے والوں کے) پہلے گروپ میں ہو گی۔ (انس بن مالک راوی حدیث فرماتے ہیں) پھر وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں سمندری سفر پر جہاد کے لیے نکلیں تو وہ سمندر سے نکلتے وقت اپنی سواری سے گر کر ہلاک ہو گئیں“۔
وضاحت: ۱؎: قباء مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ ”ام حرام بنت ملحان“ کہا جاتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ ہیں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3173
اردو حاشہ: 1) حضرت امام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہ نتھیال کی طرف سے رسول اللہﷺ کی محرم اور رشتہ دار تھیں۔ آپ کا ان کے پاس کثرت سے جان اور ان کا آپ کے سر میں جوئیں تلاش کرنا اس پر کافی دلیل ہے۔ ورنہ آپ انصار کے دوسرے گھروں میں اس طرح نہ آتے جاتے تھے۔ بعض حضرات نے اسے آپ کا خلاصہ بتلایا ہے مگر پہلی بات ہی درست ہے۔ (2) آپ کے سر میں جوئیں نہ ہوتی تھیں۔ آپ انتہائی صاف ستھرے اور خوشبودار رہتے تھے۔ ان کا آپ کے سر میں جوئیں تلاش کرنا عورتوں کی عام عادت پر محمول ہے۔ (3)”سمندر کی موجوں پر سوار“ یعنی وہ بحری سفر ہوگا۔ بحری جنگ سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی۔ امیر لشکر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اس مہم کا ذکر نبیﷺ کے پہلے خواب میں ہے۔ دوسرا بحری بیڑہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں روانہ ہوا۔ امیر لشکر ان کا بیٹا یزید تھا۔ اس لشکر میں بہت سے صحابہ کرام تشریف لے گئے تھے تاکہ آپ کی پیش گوئی اور نوید مغفرت کامصداق بن سکیں۔ اس لشکر کا تذکرہ آپ کے دسرے خواب میں ہے۔ نبیﷺ کی پیش گوئی کے مطابق حضرت ام حرامؓ پہلے لشکر میں اپنے خاوند محترم کے ساتھ موجود تھیں اور اسی میں وہ اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوگئیں۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہَا۔(4)”حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں“ اس سے مرد ان کا اپنا دور خلافت نہیں بلکہ لشکر کی سربراہی مراد ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3173
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4934
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے اور وہ آپ کو کھانا پیش کرتی تھیں اور وہ (وفات کے وقت) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کی اہلیہ تھیں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہاں تشریف لے گئے اور اس نے آپ کو کھانا کھلایا، پھر بیٹھ کر آپ کے سر سے جوئیں دیکھنے لگیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر آپﷺ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4934]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محرم تھیں، لیکن اس کی کیفیت میں اختلاف ہے، بقول بعض آپﷺ کی رضاعی خالہ تھیں اور بقول بعض آپ کے باپ یا دادا عبدالمطلب کی خالہ تھیں، کیونکہ انہی کی والدہ بنو نجار سے تھیں، اس لیے آپﷺ اس کے ہاں جاتے اور آپ نے انہیں اپنے خواب کا واقعہ سنایا، کہ میری جماعت کے کچھ لوگ بڑی ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کے ساتھ سمندری جہاد کریں گے، جس پر ام حرام رضی اللہ عنہا نے بھی ان میں شامل ہونے کی آرزو کی، تو آپﷺ نے ان کے حق میں دعا فرمائی اور پھر یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 28ھ میں جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے گورنر تھے، پیش آیا اور وہ آپ کی امت کے سب سے پہلے امیر البحر تھے اور یہ واقعہ آپ کی پیش گوئی کے مطابق پیش آیا، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بحری جہاد کی اجازت طلب کی تھی، لیکن انہوں نے اجازت نہ دی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کی اور اس پر اصرار کرتے رہے، جس کی بنا پر انہوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی، جو لوگ راضی خوشی، خودبخود جانا چاہیں، انہیں لے جاؤ، انہوں نے اس کو قبول کر لیا، اس سفر میں حضرت ام ملحان رضی اللہ عنہا بھی تھیں، وہ واپسی پر اپنے خاوند کے ساتھ سواری پر سوار ہوئیں اور گر کر مر گئیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4934
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2878
2878. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے ہاں تکیہ لگا کر سو گئے۔ پھر(جب اٹھے تو) آپ مسکرارہے تھے۔ انھوں (ام حرام ؓ) نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”میری امت کے کچھ لوگ اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لیے) سبز سمندر پر سوار ہیں، جیسے بادشاہ تخت پر فروکش ہوں۔“ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اللہ سے دعا کریں کہ مجھے ان میں سے کردے۔ آپ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! اسے بھی ان لوگوں میں سے کردے۔“ پھر آپ دوبارہ (لیٹ کر اٹھے تو) مسکرارہے تھے تو انھوں نے اس مرتبہ بھی آپ سے وہی سوال کیا تو آپ نے اسی طرح جواب دیا۔ ام حرام نے عرض کیا: آپ دعا کریں کہ اللہ مجھے ان لوگوں میں سے کردے۔ آپ نے فرمایا: ”تو پہلے لوگوں میں ہوچکی ہے، بعد والوں میں تیری شرکت نہیں ہوگی۔“ حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2878]
حدیث حاشیہ: یہ نکاح کا معاملہ دوسری روایت کے خلاف پڑتا ہے‘ جس میں یہ ہے کہ اسی وقت عبادہ بن صامت ؓ کے نکاح میں تھیں۔ شاید انہوں نے طلاق دے دی ہوگی‘ بعد میں ان سے نکاح ثانی کیا ہوگا۔ یہ اس جنگ کا ذکر ہے جس میں حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں رجب ۲۸ھ میں سب سے پہلا سمندری بیڑہ حضرت معاویہ ؓنے امیر المؤمنین کی اجازت سے تیار کیا اور قبرص پر چڑھائی کی۔ یہ مسلمانوں کی سب سے پہلی بحری جنگ تھی جس میں ام حرام ؓ جو کہ نبی اکرمﷺ کی عزیزہ تھیں‘ شریک ہوئیں اور شہادت بھی پائی۔ حضرت معاویہ ؓ کی بیوی کا نام فاختہ تھا اور وہ بھی آپ کے ساتھ اس میں شریک تھیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2878
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6282
6282. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ قباء جاتے تو سیدہ ام حرام بنت ملحان ؓ کے گھر بھی جاتے تھے۔ وہ آپ کو کھانا کھلاتی تھیں۔ اور سیدہ ام حرام ؓ کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ وہ اس سمندر کے اوپر سوار ہوں گے جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں۔ یا فرمایا ”وہ بادشاہوں کی طرح تختوں پر ہیں“ اسحاق راوی کو ان الفاظ میں شک ہے۔ میں نے عرض کی: دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان میں کر دے تو آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ پھر آپ اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ جب بیدار ہوئے تو پھر مسکرا رہے تھے میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے تھے؟ آپ نے فرمایا: میری امت سے کچھ لوگ مجھ پر پیش کیے گئے جو اللہ کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6282]
حدیث حاشیہ: ہر دو روایتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قیلولہ کا باب کے مطابق کرنے کا ذکر ہے یہی حدیث اور باب میں مطابقت ہے۔ پہلی روایت میں آپ کے خوشبودار پسینے کا ذکر ہے صد بار قابل تعریف ہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ جن کو یہ بہترین خوشبو نصیب ہوئی۔ دوسری روایت میں حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا کے متعلق ایک پیش گوئی کا ذکر ہے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حرف بہ حرف صحیح ہوئی۔ حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا اس جنگ میں واپسی کے وقت اپنی سواری سے گر کر شہید ہو گئی تھیں۔ اس طرح پیش گوئی پوری ہوئی۔ اس سے سمندری سفر کا جائز ہونا بھی ثابت ہوا، پر آج کل تو سمندری سفر بہت ضروری اور آسان بھی ہوگیا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6282
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2878
2878. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے ہاں تکیہ لگا کر سو گئے۔ پھر(جب اٹھے تو) آپ مسکرارہے تھے۔ انھوں (ام حرام ؓ) نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”میری امت کے کچھ لوگ اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لیے) سبز سمندر پر سوار ہیں، جیسے بادشاہ تخت پر فروکش ہوں۔“ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اللہ سے دعا کریں کہ مجھے ان میں سے کردے۔ آپ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! اسے بھی ان لوگوں میں سے کردے۔“ پھر آپ دوبارہ (لیٹ کر اٹھے تو) مسکرارہے تھے تو انھوں نے اس مرتبہ بھی آپ سے وہی سوال کیا تو آپ نے اسی طرح جواب دیا۔ ام حرام نے عرض کیا: آپ دعا کریں کہ اللہ مجھے ان لوگوں میں سے کردے۔ آپ نے فرمایا: ”تو پہلے لوگوں میں ہوچکی ہے، بعد والوں میں تیری شرکت نہیں ہوگی۔“ حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2878]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عثمان ؓکے دور حکومت میں حضرت امیر معاویہ ؓ کی زیر نگرانی مسلمانوں نے پہلا سمندری سفر کیا اور قبرص پر چڑھائی کی۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق حضرت اُم حرام ؓ بھی شریک ہوئیں اور شہادت پائی۔ حضرت امیر معاویہ ؓ کی زوجہ محترمہ بنت قرظہ بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔ 2۔ اس حدیث سے امام بخاری ؓ نے عورتوں کے لیے جہاد میں شرکت کو ثابت کیا ہے خواہ انھیں بحری سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ واضح رہے کہ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ رسول اللہ ﷺ کی رضاعى خالہ تھیں اس لیے آپ کا ان کے گھر آناجانا تھا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2878
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6282
6282. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ قباء جاتے تو سیدہ ام حرام بنت ملحان ؓ کے گھر بھی جاتے تھے۔ وہ آپ کو کھانا کھلاتی تھیں۔ اور سیدہ ام حرام ؓ کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ وہ اس سمندر کے اوپر سوار ہوں گے جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں۔ یا فرمایا ”وہ بادشاہوں کی طرح تختوں پر ہیں“ اسحاق راوی کو ان الفاظ میں شک ہے۔ میں نے عرض کی: دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان میں کر دے تو آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ پھر آپ اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ جب بیدار ہوئے تو پھر مسکرا رہے تھے میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے تھے؟ آپ نے فرمایا: میری امت سے کچھ لوگ مجھ پر پیش کیے گئے جو اللہ کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6282]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے تو وہیں قیلولہ فرمایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود اس حدیث کے بیان کرنے سے ہی ہے۔ (2) حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ ہجرت کے بیسویں سال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں ایک لشکر کے ساتھ نکل گئیں تو سمندر سے باہر نکلتے وقت سواری سے گر کر فوت ہوئیں۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ اس حدیث سے سمندری سفر کرنا جائز ثابت ہوا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں قیلولہ کرتے تھے۔ (فتح الباري: 93/11) واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6282