كتاب الجهاد کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل 15. بَابُ: ثَوَابِ السَّرِيَّةِ الَّتِي تُخْفِقُ باب: خالی ہاتھ لوٹ کر آنے والے غازیوں کے ثواب کا بیان۔
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں، اور مال غنیمت پاتے ہیں، تو وہ اپنی آخرت کے اجر کا دو حصہ پہلے پا لیتے ہیں ۱؎، اور آخرت میں پانے کے لیے صرف ایک تہائی باقی رہ جاتا ہے، اور اگر غنیمت نہیں پاتے ہیں تو ان کا پورا اجر (آخرت میں) محفوظ رہتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 44 (1906)، سنن ابی داود/الجہاد 13 (2497)، سنن ابن ماجہ/الجہاد (2785)، مسند احمد 2/1629 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ جو مجاہد کفار سے جہاد کر کے مال غنیمت کے ساتھ صحیح سالم واپس لوٹ آیا تو سردست اسے دو فائدے دنیا میں حاصل ہو گئے ایک سلامتی دوسرا مال غنیمت اور اللہ کے دشمنوں سے اس نے جہاد کا جو ارادہ کیا تھا اس کے سبب اسے اس کے اجر کا تیسرا حصہ آخرت میں ثواب کی شکل میں ملے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث قدسی میں اپنے رب سے نقل فرماتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندوں میں سے جو بھی بندہ میری رضا چاہتے ہوئے اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلا تو میں اس کے لیے ضمانت لیتا ہوں کہ اگر میں اس کو لوٹاؤں گا (یعنی زندہ واپس گھر بھیجوں گا) تو لوٹاؤں گا اجر و ثواب اور غنیمت دے کر اور اگر اس کی روح قبض کر لوں گا تو اس کو بخش دوں گا اور اسے اپنی رحمت سے نوازوں گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 6688)، مسند احمد (2/117) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|