كتاب تفريع أبواب الوتر کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل 8. باب فِي وَقْتِ الْوِتْرِ باب: وتر کے وقت کا بیان۔
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کب پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: سبھی وقتوں میں آپ نے پڑھا ہے، شروع رات میں بھی پڑھا ہے، درمیان رات میں بھی اور آخری رات میں بھی لیکن جس وقت آپ کی وفات ہوئی آپ کی وتر صبح ہو چکنے کے قریب پہنچ گئی تھی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوتر2(996)، صحیح مسلم/المسافرین17 (745)، (تحفة الأشراف:17639)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 218 (الوتر 4) (457)، سنن النسائی/قیام اللیل30 (1682)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 121(1186)، مسند احمد (6/ 46، 100، 107، 129، 205، 206)، سنن الدارمی/الصلاة 211 (1628) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 226 (467)، (تحفة الأشراف:8132)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 20 (750)، مسند احمد 1(2/37، 38) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن ابو قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: کبھی شروع رات میں وتر پڑھتے اور کبھی آخری رات میں، میں نے پوچھا: آپ کی قرآت کیسی ہوتی تھی؟ کیا سری قرآت کرتے تھے یا جہری؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں طرح سے پڑھتے تھے، کبھی قرآت سری کرتے اور کبھی جہری، کبھی غسل کر کے سوتے اور کبھی وضو کر کے سو جاتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: قتیبہ کے علاوہ دوسروں نے کہا ہے کہ غسل سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد غسل جنابت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض 6 (307)، سنن الترمذی/الصلاة 212 (449)، فضائل القران 23 (2924)، (تحفة الأشراف:16279)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/قیام اللیل 21 (1663)، مسند احمد (6/73، 149، 167) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی رات کی آخری نماز وتر کو بنایا کرو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوتر 5 (998)، صحیح مسلم/المسافرین 20 (751)، (تحفة الأشراف:8145)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/20، 102، 143) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|