ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا جو یمنی، سحولی، روئی کے بنے ہوئے تھے، ریشم یا اون کے نہ تھے۔ ان کپڑوں میں نہ قمیض تھا اور نہ عمامہ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس حالت میں کہ ایک شخص عرفات میں وقوف کر رہا تھا کہ اچانک اپنی سواری سے گر پڑا اور اس سواری نے اسے کچل ڈالا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو غسل دو، چاہے صرف پانی سے اور بیری کے پانی سے اور اس کو دو کپڑوں میں کفن دے دو اور اس کے جسم میں حنوط (خوشبو) نہ لگانا اور اس کا سر نہ ڈھانپنا قیامت کے دن یہ اسی طرح (بحالت احرام) لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی (منافق) جب مر گیا تو اس کا بیٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ آپ مجھے اپنا کرتا دیجئیے اور اس کا جنازہ پڑھیے اور اس کے لیے استغفار کیجئیے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتا اس کو دے دیا اور فرمایا: ”(جب جنازہ تیار ہو جائے تو) مجھے اطلاع دینا میں اس کی نماز پڑھ دوں گا چنانچہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اس کی نماز پڑھیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے سے پکڑ لیا اور عرض کی کہ کیا منافقوں پر نماز پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منع نہیں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دونوں باتوں کا اختیار دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان (منافقوں کے لیے) دعائے مغفرت کریں یا نہ کریں (یہ ان کے حق میں برابر ہے اور) اگر آپ ستر مرتبہ بھی دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز ہرگز معاف نہیں کرے گا۔“(سورۃ التوبہ: 80) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جنازہ پڑھی تو یہ آیت نازل ہوئی: ”جو کوئی منافق مر جائے اس پر کبھی نماز نہ پڑھنا۔“(سورۃ التوبہ: 84)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لائے اس کے بعد کہ وہ قبر میں رکھ دیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نکال اور اپنا لعاب اس کے منہ میں ڈال دیا اور اپنا کرتا اسے پہنا دیا۔
سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے محض اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہجرت کی پس ہمارا ثواب اللہ کے ذمے قائم ہو گیا ہم میں سے بعض لوگ تو ایسے ہیں جو وفات پا گئے اور انہوں نے اپنے ثواب میں سے (دنیا میں) کچھ نہیں لیا، انہیں لوگوں میں سے سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ تھے اور ہم میں سے بعض لوگ وہ ہیں جن کے لیے ان کا پھل پک گیا اور وہ اسے اٹھا اٹھا کر کھاتے ہیں۔ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ احد کے دن شہید ہوئے اور ہم لوگوں نے (ان کے مال میں سے) اتنا بھی نہ پایا کہ جس سے انہیں کفن دے دیتے سوائے ایک چادر کے (اور وہ بھی ایسی چھوٹی کہ) اگر ہم اس سے ان کا سر ڈھانکتے تو پاؤں کھل جاتے تھے اور جب ہم ان کے پاؤں ڈھانکتے تھے تو ان کا سر کھل جاتا تھا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ان کا سر چھپا دیں اور ان کے پاؤں پر اذخر (گھاس) ڈال دیں۔
سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی ہوئی حاشیہ دار چادر تحفتاً لائی، (پھر سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے حاضرین سے پوچھا) کیا تم جانتے ہو کہ بردہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا (ہاں جانتے ہیں بردہ) شملہ (یعنی چادر کو کہتے ہیں)۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں۔ اس عورت نے کہا کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنا ہے اور اس لیے لائی ہوں تاکہ آپ اس کو پہنچیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑے کی ضرورت بھی تھی پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور وہ چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازار تھی۔ پھر ایک شخص نے اس کی تعریف کی اور کہا کہ مجھے دے دیجئیے (چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دے دی) لوگوں نے (اس شخص سے) کہا کہ تو نے اچھا نہ کیا، اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (نہایت) ضرورت کی حالت میں پہنا تھا اور تو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگ لیا، تو یہ جانتا بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوال کو رد نہیں فرماتے (خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو)۔ اس شخص نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں نے اسے اس لیے نہیں مانگا کہ اس کو پہنوں بلکہ میں نے اسے اس لیے مانگا ہے کہ وہ میرا کفن ہو۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر وہی چادر ان کا کفن بنی۔
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”کسی عورت کو جو اللہ تعالیٰ پر ایمان پر رکھتی ہو، یہ جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے مگر شوہر پرچار مہینے اور دس دن (سوگ کرنا چاہیے)۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر کے پاس (بیٹھی ہوئی) رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اللہ سے ڈر اور صبر کر۔“ اس نے کہا کہ مجھ سے پرے ہٹو، اس لیے کہ تمہیں میرے جیسی مصیبت نہیں پہنچی۔ پھر اس عورت سے کہا گیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے (تو نے کیسا گستاخانہ جواب دیا) تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر حاضر ہوئی (وہ سمجھتی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر دربان رہتے ہوں گے مگر) اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر دربان نہیں پائے۔ پھر وہ عرض کرنے لگی کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہ تھا (اس سبب سے مجھ سے گستاخی ہوئی، اب میں صبر کرتی ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر شروع صدمہ کے وقت کرنا چاہیے۔“
16. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ میت کے عزیز و اقارب کے رونے سے کبھی میت کو عذاب ہوتا ہے (یہ اس وقت ہے کہ) جب نوحہ کرنا اس کے خاندان کا وتیرہ ہو۔
“ रसूल अल्लाह ﷺ ने कहा कि मृतक के रिश्तेदारों के रोने से कभी-कभी मृतक को अज़ाब होता है ( यह तब होता है ) जब मातम करना उसके परिवार की रीति हो ”
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی بھیجا کہ میرا لڑکا حالت نزع میں ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواب میں یہ) کہلا بھیجا (کہ میری جانب سے کہنا) کہ وہ سلام کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: ”(میں آ کے کیا کروں گا) جو اللہ تعالیٰ نے دے دیا اور جو لے لیا سب اسی کا ہے اور ہر چیز اس کے یہاں ایک مدت معین تک قائم ہے، پس چاہیے کہ باامید ثواب صبر کریں۔“ دوبارہ پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دلائی کہ وہاں ضرور تشریف لائیں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سعد بن عبادہ اور معاذ بن جبل اور ابی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور چند اور صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ (جب وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے) تو وہ صاحبزادہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر لائے گئے اور (اس وقت ان کا اخیر وقت تھا) ان کی جان تڑپ رہی تھی (ابوعثمان راوی) کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ (سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے) کہا تھا کہ وہ اس طرح تڑپ رہے تھے گویا کہ مشک (لڑھکتی ہو) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھیں بہنے لگیں تو سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ رحمت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوں۔“