(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا وكيع , حدثنا الاعمش , عن سالم بن ابي الجعد , عن زياد بن لبيد , قال: ذكر النبي صلى الله عليه وسلم شيئا , فقال:" ذاك عند اوان ذهاب العلم" , قلت: يا رسول الله , وكيف يذهب العلم؟ ونحن نقرا القرآن , ونقرئه ابناءنا , ويقرئه ابناؤنا ابناءهم إلى يوم القيامة , قال:" ثكلتك امك زياد , إن كنت لاراك من افقه رجل بالمدينة , اوليس هذه اليهود والنصارى يقرءون التوراة , والإنجيل , لا يعملون بشيء مما فيهما". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ , عَنْ زِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ , قَالَ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا , فَقَالَ:" ذَاكَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ؟ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ , وَنُقْرِئُهُ أَبْنَاءَنَا , وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَاءَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , قَالَ:" ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ زِيَادُ , إِنْ كُنْتُ لَأَرَاكَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ , أَوَلَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ , وَالْإِنْجِيلَ , لَا يَعْمَلُونَ بِشَيْءٍ مِمَّا فِيهِمَا".
زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات کا ذکر کیا اور فرمایا: ”یہ اس وقت ہو گا جب علم اٹھ جائے گا“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! علم کیسے اٹھ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے اور اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اسی طرح قیامت تک سلسلہ چلتا رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زیاد! تمہاری ماں تم پر روئے، میں تو تمہیں مدینہ کا سب سے سمجھدار آدمی سمجھتا تھا، کیا یہ یہود و نصاریٰ تورات اور انجیل نہیں پڑھتے؟ لیکن ان میں سے کسی بات پر بھی یہ لوگ عمل نہیں کرتے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3655، ومصباح الزجاجة: 1428)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/160، 219) (صحیح)» (سند میں سالم بن أبی الجعد اور زیاد بن لبید کے مابین انقطاع ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: (اقتضاء العلم العمل: 189/89 و العلم لابی خیثمة: 121/52، و المشکاة: 245 - 277)
وضاحت: ۱ ؎: بلکہ اپنے پادریوں اور مولویوں کے تابع ہیں ان کی رائے پر چلتے ہیں، یا عقلی قانون بناتے ہیں، اس پر چلتے ہیں، کتاب الٰہی کوئی نہیں پوچھتا، مقلدین حضرات جو احادیث صحیحہ کو چھوڑ کر ائمہ کے اقوال سے چمٹے ہوئے ہیں، وہ اس حدیث پر غور فرمائیں۔
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد , حدثنا ابو معاوية , عن ابي مالك الاشجعي , عن ربعي بن حراش , عن حذيفة بن اليمان , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يدرس الإسلام كما يدرس وشي الثوب , حتى لا يدرى ما صيام , ولا صلاة , ولا نسك , ولا صدقة , وليسرى على كتاب الله عز وجل في ليلة , فلا يبقى في الارض منه آية , وتبقى طوائف من الناس , الشيخ الكبير والعجوز , يقولون: ادركنا آباءنا على هذه الكلمة , لا إله إلا الله , فنحن نقولها" , فقال له صلة: ما تغني عنهم لا إله إلا الله , وهم لا يدرون ما صلاة , ولا صيام , ولا نسك , ولا صدقة؟ فاعرض عنه حذيفة , ثم ردها عليه ثلاثا , كل ذلك يعرض عنه حذيفة , ثم اقبل عليه في الثالثة , فقال: يا صلة تنجيهم من النار , ثلاثا. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ , عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ , عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ , قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَدْرُسُ الْإِسْلَامُ كَمَا يَدْرُسُ وَشْيُ الثَّوْبِ , حَتَّى لَا يُدْرَى مَا صِيَامٌ , وَلَا صَلَاةٌ , وَلَا نُسُكٌ , وَلَا صَدَقَةٌ , وَلَيُسْرَى عَلَى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي لَيْلَةٍ , فَلَا يَبْقَى فِي الْأَرْضِ مِنْهُ آيَةٌ , وَتَبْقَى طَوَائِفُ مِنَ النَّاسِ , الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْعَجُوزُ , يَقُولُونَ: أَدْرَكْنَا آبَاءَنَا عَلَى هَذِهِ الْكَلِمَةِ , لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , فَنَحْنُ نَقُولُهَا" , فَقَالَ لَهُ صِلَةُ: مَا تُغْنِي عَنْهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَهُمْ لَا يَدْرُونَ مَا صَلَاةٌ , وَلَا صِيَامٌ , وَلَا نُسُكٌ , وَلَا صَدَقَةٌ؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ حُذَيْفَةُ , ثُمَّ رَدَّهَا عَلَيْهِ ثَلَاثًا , كُلَّ ذَلِكَ يُعْرِضُ عَنْهُ حُذَيْفَةُ , ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فِي الثَّالِثَةِ , فَقَالَ: يَا صِلَةُ تُنْجِيهِمْ مِنَ النَّارِ , ثَلاثًا.
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام ایسا ہی پرانا ہو جائے گا جیسے کپڑے کے نقش و نگار پرانے ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ یہ جاننے والے بھی باقی نہ رہیں گے کہ نماز، روزہ، قربانی اور صدقہ و زکاۃ کیا چیز ہے؟ اور کتاب اللہ ایک رات میں ایسی غائب ہو جائے گی کہ اس کی ایک آیت بھی باقی نہ رہ جائے گی ۱؎، اور لوگوں کے چند گروہ ان میں سے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں باقی رہ جائیں گے، کہیں گے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو یہ کلمہ «لا إله إلا الله» کہتے ہوئے پایا، تو ہم بھی اسے کہا کرتے ہیں ۲؎۔ صلہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: جب انہیں یہ نہیں معلوم ہو گا کہ نماز، روزہ، قربانی اور صدقہ و زکاۃ کیا چیز ہے تو انہیں فقط یہ کلمہ «لا إله إلا الله» کیا فائدہ پہنچائے گا؟ تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ان سے منہ پھیر لیا، پھر انہوں نے تین بار یہ بات ان پر دہرائی لیکن وہ ہر بار ان سے منہ پھیر لیتے، پھر تیسری مرتبہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے صلہ! یہ کلمہ ان کو جہنم سے نجات دے گا، اس طرح تین بار کہا“۳؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے حروف غائب ہو جا ئیں گے اور حافظ تو پہلے ہی چلے جا ئیں گے۔ ۲؎: باقی دین کی اور کوئی بات انہیں معلوم نہ ہو گی۔ ۳؎: کیونکہ وہ لوگ دین کی اور باتوں کے منکر نہ ہوں گے صرف اسے ناواقف ہوں گے اور ناواقف آدمی کو نجات کے لئے صرف توحید کافی ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے قریب کچھ دن ایسے ہوں گے جن میں علم اٹھ جائے گا، جہالت بڑھ جائے گی، اور «هرج» زیادہ ہو گا“، «هرج»: قتل کو کہتے ہیں۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے بعد ایسے دن آئیں گے جن میں جہالت چھا جائے گی، علم اٹھ جائے گا، اور «هرج» زیادہ ہو گا“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «هرج» کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمانہ ایک دوسرے سے قریب ہو جائے گا، ۱؎ علم گھٹ جائے گا، (لوگوں کے دلوں میں) بخیلی ڈال دی جائے گی، فتنے ظاہر ہوں گے، اور «هرج» زیادہ ہو گا“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «هرج» کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الفتن 5 (7061)، صحیح مسلم/العلم 72 (157)، (تحفة الأشراف: 13272)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/233) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی عیش و عشرت یا بے برکتی کی وجہ سے زمانہ جلدی گزر جائے گا، یا عمریں چھوٹی ہوں گی۔