كتاب الفتن کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل 16. بَابُ: مَنْ تُرْجَى لَهُ السَّلاَمَةُ مِنَ الْفِتَنِ باب: جن کے بارے میں امید ہے کہ وہ فتنوں سے محفوظ ہوں گے ان کا بیان۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن وہ مسجد نبوی کی جانب گئے، تو وہاں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس بیٹھے رو رہے ہیں، انہوں نے معاذ رضی اللہ عنہ سے رونے کا سبب پوچھا، تو معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے ایک ایسی بات رلا رہی ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”معمولی ریاکاری بھی شرک ہے، بیشک جس نے اللہ کے کسی دوست سے دشمنی کی، تو اس نے اللہ سے اعلان جنگ کیا، اللہ تعالیٰ ان نیک، گم نام متقی لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اگر غائب ہو جائیں تو کوئی انہیں تلاش نہیں کرتا، اور اگر وہ حاضر ہو جائیں تو لوگ انہیں کھانے کے لیے نہیں بلاتے، اور نہ انہیں پہچانتے ہیں، ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں، ایسے لوگ ہر گرد آلود تاریک فتنے سے نکل جائیں گے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11305، ومصباح الزجاجة: 1402) (ضعیف)» (سند میں عیسیٰ بن عبد الرحمن ضعیف و متروک راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی مثال ان سو اونٹوں کے مانند ہے، جن میں سے ایک بھی سواری کے لائق نہیں پاؤ گے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6740)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق 35 (6498)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 60 (2547)، سنن الترمذی/الأمثال 7 (2872)، مسند احمد (2/70، 123، 139) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سواری میں استعمال ہونے والا جانور نرم مزاج اور سیدھا ہوتا ہے، لیکن عملاً کمیاب، ایسے سیکڑوں آدمیوں میں سے کوئی کوئی ہوتا ہے، جو دوستی اور تعلقات کو استوار کرنے کے لائق ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اکثر لوگوں میں مختلف انداز کی کمیاں پائی جاتی ہیں، کامل و مکمل اور بھر پور شخصیت والے کم ہی لوگ ہوتے ہیں، امام بخاری نے اس حدیث کو کتاب الرقاق کے باب «رفع الامانہ» میں اسی لئے ذکر کیا ہے کہ اخیر امت میں لوگ اس باب میں بھی کمیاب ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|