ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا اور عنقریب پھر اجنبی ہو جائے گا، تو ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے“۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، اور عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 855، ومصباح الزجاجة: 1401) (حسن صحیح)» (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے، آپ سے سوال کیا گیا: غرباء کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ ہیں جو اپنے قبیلے سے نکال دئیے گئے ہوں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الإیمان 13 (2629)، (تحفة الأشراف: 9510)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/398)، سنن الدارمی/الرقاق 42 (2797) (صحیح)» «قال قيل ومن الغرباء قال النزاع من القبائل» کا ٹکڑا یعنی غرباء کی تعریف ضعیف ہے، تراجع الألبانی: رقم: 175)
وضاحت: ۱؎: یعنی مسافر، پردیسی جن کا کوئی دوست اور مددگار نہ ہو، شروع میں اسلام ایسے ہی لوگوں نے اختیار کیا تھا جیسے بلال، صہیب، سلمان، مقداد، ابوذر رضی اللہ عنہم وغیرہ اور قریشی مہاجر بھی اجنبی ہو گئے تھے اس لئے کہ قریش نے ان کو مکہ سے نکال دیا تھا، تو وہ مدینہ میں اجنبی تھے۔