(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا صدقة بن خالد , حدثني عتبة بن ابي حكيم , حدثني عن عمه عمرو بن جارية , عن ابي امية الشعباني , قال: اتيت ابا ثعلبة الخشني , قال: قلت: كيف تصنع في هذه الآية , قال: اية آية , قلت: يايها الذين آمنوا عليكم انفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم سورة المائدة آية 105 قال: سالت عنها خبيرا , سالت عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال:" بل ائتمروا بالمعروف وتناهوا عن المنكر , حتى إذا رايت شحا مطاعا وهوى متبعا , ودنيا مؤثرة , وإعجاب كل ذي راي برايه , ورايت امرا لا يدان لك به , فعليك خويصة نفسك , ودع امر العوام , فإن من ورائكم ايام الصبر، الصبر فيهن مثل قبض على الجمر , للعامل فيهن مثل اجر خمسين رجلا يعملون بمثل عمله". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ , حَدَّثَنِي عَنْ عَمِّهِ عَمْرِو بْنِ جَارِيَةَ , عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الشَّعْبَانِيِّ , قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ , قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ تَصْنَعُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ , قَالَ: أَيَّةُ آيَةٍ , قُلْتُ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ سورة المائدة آية 105 قَالَ: سَأَلْتَ عَنْهَا خَبِيرًا , سَأَلْتُ عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" بَلِ ائْتَمِرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنَاهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ , حَتَّى إِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا وَهَوًى مُتَّبَعًا , وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً , وَإِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ , وَرَأَيْتَ أَمْرًا لَا يَدَانِ لَكَ بِهِ , فَعَلَيْكَ خُوَيْصَةَ نَفْسِكَ , وَدَعْ أَمْرَ الْعَوَامِّ , فَإِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامَ الصَّبْرِ، الصَّبْرُ فِيهِنَّ مِثْلِ قَبْضٍ عَلَى الْجَمْرِ , لِلْعَامِلِ فِيهِنَّ مِثْلُ أَجْرِ خَمْسِينَ رَجُلًا يَعْمَلُونَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ".
ابوامیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور میں نے ان سے پوچھا کہ اس آیت کریمہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے پوچھا: کون سی آیت؟ میں نے عرض کیا: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم»”اے ایمان والو! اپنے آپ کی فکر کرو، جب تم ہدایت یاب ہو گے تو دوسروں کی گمراہی تمہیں ضرر نہیں پہنچائے گی“(سورة المائدة: 105) انہوں نے کہا: تم نے ایک جان کار شخص سے اس کے متعلق سوال کیا ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ تم اچھی باتوں کا حکم دو، اور بری باتوں سے روکو یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ بخیل کی اطاعت کی جاتی ہے، خواہشات کے پیچھے چلا جاتا ہے، اور دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے، ہر صاحب رائے اپنی رائے اور عقل پر نازاں ہے اور تمہیں ایسے کام ہوتے نظر آئیں جنہیں روکنے کی تم میں طاقت نہ ہو تو ایسے وقت میں تم خاص اپنے آپ سے کام رکھو۔ تمہارے پیچھے ایسے دن بھی آئیں گے کہ ان میں صبر کرنا مشکل ہو جائے گا، اور اس وقت دین پر صبر کرنا اتنا مشکل ہو جائے گا جتنا کہ انگارے کو ہاتھ میں پکڑنا، اس زمانہ میں عمل کرنے والے کو اتنا ثواب ملے گا، جتنا اس جیسا عمل کرنے والے پچاس لوگوں کو ملے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الملاحم 17 (4341)، سنن الترمذی/التفسیر 6 (3058)، (تحفة الأشراف: 11881) (ضعیف)» (سند میں عمرو بن جاریہ، اور ابو امیہ شعبانی دونوں ضعیف ہیں، لیکن «أيام الصبر» کا فقرہ ثابت ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن فقرة أيام الصبر ثابتة
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو کس وقت ترک کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت جب تم میں وہ باتیں ظاہر ہو جائیں جو گذشتہ امتوں میں ظاہر ہوئی تھیں“، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے گذشتہ امتوں میں کون سی باتیں ظاہر ہوئی تھیں؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حکومت تمہارے کم عمروں میں چلی جائے گی، اور تمہارے بڑے آدمیوں میں فحش کاری آ جائے گی، اور علم تمہارے ذلیل لوگوں میں چلا جائے“۔ زید کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول: «والعلم في رذالتكم» کا مطلب یہ ہے کہ علم (دین) فاسقوں میں چلا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1604، ومصباح الزجاجة: 1412)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/187) (ضعیف)» (سند ضعیف ہے اس لئے کہ مکحول مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو رسوا و ذلیل کرے“، لوگوں نے عرض کیا: اپنے آپ کو کیسے رسوا و ذلیل کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی مصیبت کا سامنا کرے گا، جس کی اس میں طاقت نہ ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 67 (2254)، (تحفة الأشراف: 3305)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/405) (حسن)» (سند میں علی بن زید جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن طبرانی میں ابن عمر رضی اللہ عنہا کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 613)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندے سے سوال کرے گا یہاں تک کہ وہ پو چھے گا کہ تم نے جب خلاف شرع کام ہوتے دیکھا تو اسے منع کیوں نہ کیا؟ تو جب اس سے کوئی جواب نہ بن سکے گا تو اللہ تعالیٰ خود اس کو جواب سکھائے گا اور وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں نے تیرے رحم کی امید رکھی، اور لوگوں کا خوف کیا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4395، ومصباح الزجاجة: 1413)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/27، 29، 77) (صحیح)»