كتاب الفتن کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل 1. بَابُ: الْكَفِّ عَمَّنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ باب: کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے سے ہاتھ روک لینا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کروں جب تک وہ «لا إله إلا الله» نہ کہہ دیں، جب وہ «لا إله إلا الله» کا اقرار کر لیں (اور شرک سے تائب ہو جائیں) تو انہوں نے اپنے مال اور اپنی جان کو مجھ سے بچا لیا، مگر ان کے حق کے بدلے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «حدیث حفص بن غیاث أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان 8 (21)، (تحفة الأشراف: 12367)، وحدیث أبي معاویة أخرجہ: سنن ابی داود/الجہاد 104 (2640)، سنن الترمذی/الإیمان 1 (2606)، سنن النسائی/المحاربة 1 (3981)، (تحفة الأشراف: 12506)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 1 (1399)، الجہاد 102 (2946)، المرتدین 3 (6924)، الاعتصام 2 (7284)، مسند احمد (2/528) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ”ان کے حق کے بدلے“ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے اس کلمہ کے اقرار کے بعد کوئی ایسا جرم کیا جو قابل حد ہے تو وہ حد اس پر نافذ ہو گی مثلاً چوری کی تو ہاتھ کاٹا جائے گا، زنا کیا تو سو کوڑوں کی یا رجم کی سزا دی جائے گی، کسی کو ناحق قتل کیا تو قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا۔ ۲؎: ”اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے“ کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ قبول اسلام میں مخلص نہیں ہوں گے بلکہ منافقانہ طور پر اسلام کا اظہار کریں گے یا قابل حد جرم کا ارتکاب کریں گے، لیکن اسلامی عدالت اور حکام کے علم میں ان کا جرم نہیں آ سکا اور وہ سزا سے بچ گئے، تو ان کا حساب اللہ کے سپرد ہو گا یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کا فیصلہ فرمائے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے لڑتا رہوں جب تک وہ «لا إله إلا الله» کا اقرار نہ کر لیں، جب انہوں نے اس کا اقرار کر لیا، تو اپنے مال اور اپنی جان کو مجھ سے بچا لیا، مگر ان کے حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 8 (21)، سنن النسائی/الجہاد 1 (3092)، تحریم الدم 1 (3982)، (تحفة الأشراف: 2298)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/394) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اور آپ حکایات و واقعات سنا کر ہمیں نصیحت فرما رہے تھے، کہ اتنے میں ایک شخص حاضر ہوا، اور اس نے آپ کے کان میں کچھ باتیں کیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے جا کر قتل کر دو“، جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر واپس بلایا، اور پوچھا: ”کیا تم «لا إله إلا الله» کہتے ہو“؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ جاؤ اسے چھوڑ دو، کیونکہ مجھے لوگوں سے لڑائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کہیں، جب انہوں نے «لا إله إلا الله» کہہ دیا تو اب ان کا خون اور مال مجھ پر حرام ہو گیا“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/تحریم 1 (3987)، (تحفة الأشراف: 1738، ومصباح الزجاجة: 1373)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/8)، سنن الدارمی/السیر 10 (2490) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نافع بن ازرق اور ان کے اصحاب (و تلامیذ) آئے، اور کہنے لگے: عمران! آپ ہلاک و برباد ہو گئے! عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ہلاک نہیں ہوا، انہوں نے کہا: کیوں نہیں، آپ ضرور ہلاک ہو گئے، تو انہوں نے کہا: آخر کس چیز نے مجھے ہلاک کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة ويكون الدين كله لله» ”کافروں و مشرکوں سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی شرک) باقی نہ رہے، اور دین پورا کا پورا اللہ کا ہو جائے“ (سورة الأنفال: 39)، عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے کفار سے اسی طرح لڑائی کی یہاں تک کہ ہم نے ان کو وطن سے باہر نکال دیا، اور دین پورا کا پورا اللہ کا ہو گیا، اگر تم چاہو تو میں تم سے ایک حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ان لوگوں نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ کہا: ہاں، میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، میں آپ کے ساتھ موجود تھا، اور آپ نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکین کے مقابلے کے لیے بھیجا تھا، جب ان کی مڈبھیڑ مشرکوں سے ہوئی، تو انہوں نے ان سے ڈٹ کر جنگ کی، آخر کار مشرکین نے اپنے کندھے ہماری جانب کر دئیے (یعنی ہار کر بھاگ نکلے)، میرے ایک رشتہ دار نے مشرکین کا تعاقب کر کے ایک مشرک پر نیزے سے حملہ کیا، جب اس کو پکڑ لیا، (اور کافر نے اپنے آپ کو خطرہ میں دیکھا) تو اس نے «أشهد أن لا إله إلا الله» کہہ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا، لیکن اس نے اسے برچھی سے مار کر قتل کر دیا، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں ہلاک اور برباد ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کیا کیا“؟، ایک بار یا دو بار کہا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا وہ واقعہ بتایا جو اس نے کیا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس کا پیٹ کیوں نہیں پھاڑا کہ جان لیتے اس کے دل میں کیا ہے“؟، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر میں اس کا پیٹ پھاڑ دیتا تو کیا میں جان لیتا کہ اس کے دل میں کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے نہ تو اس کی بات قبول کی، اور نہ تمہیں اس کی دلی حالت معلوم تھی“ ۱؎۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق خاموش رہے، پھر وہ کچھ ہی دن زندہ رہ کر مر گیا، ہم نے اسے دفن کیا، لیکن صبح کو اس کی لاش قبر کے باہر پڑی تھی، لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ کسی دشمن نے اس کی لاش نکال پھینکی ہے، خیر پھر ہم نے اس کو دفن کیا، اس کے بعد ہم نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ اس کی قبر کی حفاظت کریں، لیکن پھر صبح اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی، ہم نے سمجھا کہ شاید غلام سو گئے (اور کسی دشمن نے آ کر پھر اس کی لاش نکال کر باہر پھینک دی)، آخر ہم نے اس کو دفن کیا، اور رات بھر خود پہرا دیا لیکن پھر اس کی لاش صبح کے وقت قبر کے باہر تھی، پھر ہم نے اس کی لاش ان گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں ڈال دی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10828، ومصباح الزجاجة: 1374)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/438) (حسن)» (سند میں سوید بن سعید متکلم فیہ راوی ہیں، نیز علی بن مسہر کے یہاں نابینا ہونے کے بعد غرائب کی روایت ہے، لیکن اگلے طریق سے یہ حسن ہے بوصیری نے اس کی تحسین کی ہے)
وضاحت:
۱؎: اس لئے جب اس نے کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان کہا تو اسے چھوڑ دینا تھا۔ ۲؎: نافع بن ازرق وغیرہ نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں سے لڑنے کا مشورہ دیا، اور یہ سمجھے کہ آیت میں قتال کا حکم فتنہ کے دفع کرنے کے لئے ہے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے اس حکم کو چھوڑ دیا ہے، جب عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ آیت میں فتنے سے شرک مراد ہے، اور مشرکین سے ہم ہی لوگوں نے لڑائی کی تھی، اور شرک کو مٹایا تھا، اب تم مسلمانوں سے لڑنا چاہتے ہو جو کلمہ گو ہیں؟ تمہارا حال وہی ہو گا جو اس شخص کا ہوا کہ زمین نے اس کی لاش قبول نہیں کی، اس کو بار بار دفن کرتے تھے، اور زمین اس کو نکال کر قبرسے باہر پھینک دیتی تھی، مسلمان کو قتل کرنے کی یہی سزا ہے، دوسرے ایک صحابی سے منقول ہے کہ مسلمانوں کے آپسی فتنے میں ان کو بھی لڑنے کے لئے کہا گیا، تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اس واسطے کفار کے خلاف جنگ کی تھی کہ فتنہ باقی نہ رہے اور اللہ تعالی کا دین ایک ہو جائے اور تم اس لئے لڑتے ہو کہ فتنہ پیدا ہو۔
اس سند سے بھی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک سریہ کے ساتھ روانہ کیا تو ایک مسلمان نے ایک مشرک پر حملہ کیا، پھر راوی نے وہی سابقہ قصہ بیان کیا، اور اتنا اضافہ کیا کہ زمین نے اس کو پھینک دیا، اس کی خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمین تو اس سے بھی بدتر آدمی کو قبول کر لیتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تمہیں یہ دکھائے کہ «لا إله إلا الله» کی حرمت کس قدر بڑی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10828)، ومصباح الزجاجة: 1375) (حسن)» (آخری عمر میں حفص بن غیاث کے حافظہ میں معمولی تبدیلی آ گئی تھی، لیکن سابقہ طریق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، بوصیری نے اس کی تحسین کی ہے)
وضاحت:
۱؎: جب کافر نے «لا إله إلا الله» کہہ دیا تو اس کو چھوڑ دینا چاہئے اس شخص نے اس کلمے کا احترام نہیں کیا تو اس کی سزا اللہ تعالیٰ نے تم کو دکھلا دی تاکہ آئندہ تم کو خیال رہے کہ کسی مسلمان کو مت قتل کرو۔ |