كتاب الأحكام کتاب: قضا کے احکام و مسائل 11. بَابُ: الرَّجُلاَنِ يَدَّعِيَانِ السِّلْعَةَ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ باب: ایک چیز کے دو دعوے دار ہوں اور کسی کے پاس گواہ نہ ہوں تو اس کی حکم کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ذکر کیا کہ ایک جانور پر دو آدمیوں نے دعویٰ کیا، اور ان دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم پر قرعہ اندازی کا حکم دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأقضیة 22 (3616، 3617)، (تحفة الأشراف: 14662)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الشہادات 24 (2674)، مسند احمد (2/489، 524) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کی صورت یہ ہے کہ جانور ایک تیسرے شخص کے پاس ہو اور دو شخص اس کا دعوی کریں، اور تیسرا شخص کہے کہ میں اصل مالک کو نہیں پہچانتا، علی رضی اللہ عنہ کا یہی قول ہے، اور شافعی کے نزدیک وہ جانور تیسرے کے پاس رہے گا، اور ابوحنیفہ کے نزدیک دونوں دعوے داروں کو آدھا آدھا بانٹ دیں گے، اسی طرح اگر دو شخص ایک چیز کا دعوی کریں، اور دونوں گواہ پیش کریں اور کوئی ترجیح کی وجہ نہ ہو تو اس چیز کو آدھا آدھا بانٹ دیں گے، (ابوداود، حاکم، بیہقی)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی جھگڑا لے کر آئے، اور ان دونوں کے درمیان ایک جانور تھا (جس پر دونوں اپنا اپنا دعویٰ کر رہے تھے) اور ان دونوں میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ نہ تھا، تو آپ نے اسے دونوں کو آدھا آدھا بانٹ دیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأقضیة 22 (3613، 3614، 3615)، سنن النسائی/آداب القضاة 34 (5426)، (تحفة الأشراف: 9088)، مسند احمد (4/403) (ضعیف)» (قتادہ سے مروی ان احادیث میں روایت ابوموسیٰ اشعری سے ہے، اور بعض رواة نے اسے سعید بن ابی بردہ عن أبیہ مرسلاً روایت کیا ہے، اور بعض حفاظ نے اسے سماک بن حرب سے مرسلاً صحیح مانا ہے، ملاحظہ ہو: تحفة الأشراف: 9088 و الإرواء: 2656)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|