(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا زيد بن الحباب ، عن معاوية بن صالح ، حدثني الحسن بن جابر ، عن المقدام بن معد يكرب الكندي ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يوشك الرجل متكئا على اريكته، يحدث بحديث من حديثي، فيقول: بيننا وبينكم كتاب الله عز وجل، فما وجدنا فيه من حلال استحللناه، وما وجدنا فيه من حرام حرمناه، الا وإن ما حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل ما حرم الله". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ ، حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ جَابِرٍ ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ الْكِنْدِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يُوشِكُ الرَّجُلُ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ، يُحَدَّثُ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِي، فَيَقُولُ: بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَلَالٍ اسْتَحْلَلْنَاهُ، وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاهُ، أَلا وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ".
مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور اس سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ کہے: ”ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے، ہم اس میں جو چیز حلال پائیں گے اسی کو حلال سمجھیں گے اور جو چیز حرام پائیں گے اسی کو حرام جانیں گے“، تو سن لو! جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے وہ ویسے ہی ہے جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے“۔
Miqdam bin Ma'dikarib Al-Kindi narrated that:
The Messenger of Allah (ﷺ) said: "Soon there will come a time that a man will be reclining on his pillow, and when one of my Ahadith is narrated he will say: 'The Book of Allah is (sufficient) between us and you. Whatever it states is permissible, we will take as permissible, and whatever it states is forbidden, we will take as forbidden.' Verily, whatever the Messenger of Allah (ﷺ) has forbidden is like that which Allah has forbidden."
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کو ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے ہو، اور اس کے پاس جن چیزوں کا میں نے حکم دیا ہے، یا جن چیزوں سے منع کیا ہے میں سے کوئی بات پہنچے تو وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو چیز پائی اس کی پیروی کی“۔
It was narrated from Ubaidullah bin Abu Rafi from his father, that:
The Messenger of Allah (ﷺ) said: "I do not want to find anyone of you reclining on his pillow, and when bad news comes to him of something that I have commanded or forbidden, he says, 'I do not know, whatever we find in the Book of Allah, we will follow."
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے، تو وہ قابل رد ہے ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: یہ ایک اہم شرعی ضابطہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جس کام پر کتاب اور سنت صحیحہ کی کوئی دلیل نہ ہو، اور صحابہ و تابعین اور خیر القرون کے تعامل سے وہ محروم ہو تو وہ بدعت ہے۔
Aishah narrated that:
The Messenger of Allah (ﷺ) said: "Whoever innovates something in this matter of ours (i.e. Islam) that is not part of it, will have it rejected."
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح بن المهاجر المصري ، انبانا الليث بن سعد ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، ان عبد الله بن الزبير ، حدثه، ان رجلا من الانصار خاصم الزبير عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في شراج الحرة التي يسقون بها النخل، فقال الانصاري: سرح الماء يمر، فابى عليه، فاختصما عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اسق يا زبير، ثم ارسل الماء إلى جارك، فغضب الانصاري، فقال: يا رسول الله ان كان ابن عمتك؟ فتلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: يا زبير" اسق، ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر" قال، فقال: الزبير: والله إني لاحسب هذه الآية نزلت في ذلك، فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في انفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما سورة النساء آية 65. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَهُ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحِ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِ، فَاخْتَصَمَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا زُبَيْرُ" اسْقِ، ثُمَّ احْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ" قَالَ، فَقَال: الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسَبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا سورة النساء آية 65.
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقام حرہ کی اس نالی کے بارے میں جھگڑا کیا جس سے لوگ کھجور کے باغات کی سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: پانی چھوڑ دو تاکہ میرے کھیت میں چلا جائے، زبیر رضی اللہ عنہ نے انکار کیا، ان دونوں نے اپنا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زبیر! تم اپنا کھیت سینچ لو! پھر اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑ دو“، انصاری غضبناک ہو کر بولا: اللہ کے رسول! یہ اس وجہ سے کہ وہ آپ کے پھوپھی کے بیٹے ہیں؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زبیر! تم اپنا باغ سینچ لو، پھر پانی روکے رکھو یہاں تک کہ وہ مینڈوں تک پہنچ جائے“، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: زبیر نے کہا: قسم اللہ کی! میرا خیال ہے کہ یہ آیت اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ہے: «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما»”قسم ہے آپ کے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے سارے اختلافات اور جھگڑوں میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ آپ ان میں کر دیں اس سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں، اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں“(سورة النساء: 65)۔
It was narrated from Urwah bin Zubair that 'Abdullah bin Zubair told him that:
A man from the Ansar had a dispute with Zubair in the presence of the Messenger of Allah (ﷺ) concerning a stream in the Harrah which they used to irrigate the date-palm trees. The Ansari said: "Let the water flow" but Zubair refused. So they referred that dispute to the Messenger of Allah (ﷺ) who said: "Irrigate (your land), O Zubair., and then let the water flow to your neighbor." The Ansari became angry and said "O Messenger of Allah, is it because he is your cousin?" The face of the Messenger of Allah (ﷺ) changed color (because of anger) and he said: "O Zubair, irrigate (your land) then block the water until it flows back to the walls around the date-palm trees." Zubair said: "By Allah, I think that this verse was revealed concerning this matter. ' But no, by your Lord, they can have no Faith, until they make you (O Muhammad) judge in all disputes between them, and find in themselves no resistance against your decisions, and accept (them) with full submission.' "
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى النيسابوري ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا تمنعوا إماء الله ان يصلين في المسجد"، فقال ابن له: إنا لنمنعهن، فقال: فغضب غضبا شديدا، وقال: إني احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وإنك تقول: إنا لنمنعهن؟. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ أَنْ يُصَلِّينَ فِي الْمَسْجِدِ"، فَقَالَ ابْنٌ لَهُ: إِنَّا لَنَمْنَعُهُنَّ، فَقَالَ: فَغَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا، وَقَالَ: إِنِّي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّكَ تَقُولُ: إِنَّا لَنَمْنَعُهُنَّ؟.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ کی بندیوں (عورتوں) کو مسجد میں نماز پڑھنے سے نہ روکو“، تو ان کے ایک بیٹے نے ان سے کہا: ہم تو انہیں ضرور روکیں گے، یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنہما سخت ناراض ہوئے اور بولے: میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے؟ ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: گویا تم اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے مدمقابل لا رہے ہو، مسند احمد (۲/۶۳) میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے زندگی بھر اس لڑکے سے بات نہیں کی۔
It was narrated from Ibn Umar that:
The Messenger of Allah (ﷺ) said:" Do not prevent the female slaves of Allah from praying in the mosque." A son of his said: We will indeed prevent them!" He got very angry and said: "I tell you a Hadith from the Messenger of Allah (ﷺ) and you say, we will indeed prevent them?!"
(مرفوع) حدثنا احمد بن ثابت الجحدري ، وابو عمر حفص بن عمرو ، قالا: حدثنا عبد الوهاب الثقفي ، حدثنا ايوب ، عن سعيد بن جبير ، عن عبد الله بن مغفل ، انه كان جالسا إلى جنبه ابن اخ له، فخذف فنهاه، وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنها، فقال:" إنها لا تصيد صيدا، ولا تنكي عدوا، وإنها تكسر السن، وتفقا العين"، قال: فعاد ابن اخيه يخذف، فقال: احدثك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عنها"، ثم عدت تخذف، لا اكلمك ابدا. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ ، وَأَبُو عُمَرَ حَفْصُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا إِلَى جَنْبِهِ ابْنُ أَخٍ لَهُ، فَخَذَفَ فَنَهَاهُ، وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا، فَقَالَ:" إِنَّهَا لَا تَصِيدُ صَيْدًا، وَلَا تَنْكِي عَدُوًّا، وَإِنَّهَا تَكْسِرُ السِّنَّ، وَتَفْقَأُ الْعَيْنَ"، قَالَ: فَعَادَ ابْنُ أَخِيهِ يَخْذِفُ، فَقَالَ: أُحَدِّثُكَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْهَا"، ثُمَّ عُدْتَ تَخْذِفُ، لَا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا.
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا ایک بھتیجا ان کے بغل میں بیٹھا ہوا تھا، اس نے دو انگلیوں کے درمیان کنکری رکھ کر پھینکی، تو انہوں نے اسے منع کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سے روکا ہے اور فرمایا ہے کہ: ”یہ کنکری نہ تو کوئی شکار کرتی ہے، اور نہ ہی دشمن کو زخمی کرتی ہے، البتہ یہ دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے“۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ان کا بھتیجا دوبارہ کنکریاں پھینکنے لگا تو انہوں نے کہا: میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سے روکا ہے اور تم پھر اسے کرنے لگے، میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا۔
It was narrated from Sa'eed bin Jubair that :
Abdullah bin Mughaffal was sitting beside a nephew of his, the nephew hurled a pebble and he told him not to do that, and he said: "The Messenger of Allah (ﷺ) had forbidden that. He (the Prophet) said: 'It cannot be used for hunting and it cannot harm an enemy, but it may break a tooth or put an eye out." He said." His nephew hurled another pebble and he ("Abdullah bin Mughaffal) said: 'I tell you that the Messenger of Allah forbade that (and you go hurl another pebble)? I will never speak to you again.'"
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا يحيى بن حمزة ، حدثني برد بن سنان ، عن إسحاق بن قبيصة ، عن ابيه ، ان عبادة بن الصامت الانصاري النقيب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، غزا مع معاوية ارض الروم، فنظر إلى الناس وهم يتبايعون كسر الذهب بالدنانير، وكسر الفضة بالدراهم، فقال: يا ايها الناس إنكم تاكلون الربا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا تبتاعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل لا زيادة بينهما ولا نظرة" فقال له معاوية: يا ابا الوليد لا ارى الربا في هذا إلا ما كان من نظرة، فقال عبادة: احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتحدثني عن رايك، لئن اخرجني الله لا اساكنك بارض لك علي فيها إمرة، فلما قفل لحق بالمدينة، فقال له عمر بن الخطاب: ما اقدمك يا ابا الوليد؟ فقص عليه القصة، وما قال من مساكنته، فقال: ارجع يا ابا الوليد إلى ارضك، فقبح الله ارضا لست فيها، وامثالك وكتب إلى معاوية: لا إمرة لك عليه، واحمل الناس على ما قال فإنه هو الامر. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ ، حَدَّثَنِي بُرْدُ بْنُ سِنَانٍ ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ قَبِيصَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ الْأَنْصَارِيَّ النَّقِيبَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَزَا مَعَ مُعَاوِيَةَ أَرْضَ الرُّومِ، فَنَظَرَ إِلَى النَّاسِ وَهُمْ يَتَبَايَعُونَ كِسَرَ الذَّهَبِ بِالدَّنَانِيرِ، وَكِسَرَ الْفِضَّةِ بِالدَّرَاهِمِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ الرِّبَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا تَبْتَاعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ لَا زِيَادَةَ بَيْنَهُمَا وَلَا نَظِرَةَ" فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: يَا أَبَا الْوَلِيدِ لَا أَرَى الرِّبَا فِي هَذَا إِلَّا مَا كَانَ مِنْ نَظِرَةٍ، فَقَالَ عُبَادَةُ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُحَدِّثُنِي عَنْ رَأْيِكَ، لَئِنْ أَخْرَجَنِي اللَّهُ لَا أُسَاكِنُكَ بِأَرْضٍ لَكَ عَلَيَّ فِيهَا إِمْرَةٌ، فَلَمَّا قَفَلَ لَحِقَ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَا أَقْدَمَكَ يَا أَبَا الْوَلِيدِ؟ فَقَصَّ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، وَمَا قَالَ مِنْ مُسَاكَنَتِهِ، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا الْوَلِيدِ إِلَى أَرْضِكَ، فَقَبَحَ اللَّهُ أَرْضًا لَسْتَ فِيهَا، وَأَمْثَالُكَ وَكَتَبَ إِلَى مُعَاوِيَةَ: لَا إِمْرَةَ لَكَ عَلَيْهِ، وَاحْمِلِ النَّاسَ عَلَى مَا قَالَ فَإِنَّهُ هُوَ الْأَمْرُ.
قبیصہ سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سر زمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا: لوگو! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ۱؎“، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ابوالولید! میری رائے میں تو یہ سود نہیں ہے، یعنی نقدا نقد میں تفاضل (کمی بیشی) جائز ہے، ہاں اگر ادھار ہے تو وہ سود ہے، عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ سے حدیث رسول بیان کر رہا ہوں اور آپ اپنی رائے بیان کر رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں سے صحیح سالم نکال دیا تو میں کسی ایسی سر زمین میں نہیں رہ سکتا جہاں میرے اوپر آپ کی حکمرانی چلے، پھر جب وہ واپس لوٹے تو مدینہ چلے گئے، تو ان سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ابوالولید! مدینہ آنے کا سبب کیا ہے؟ تو انہوں نے ان سے پورا واقعہ بیان کیا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کے زیر انتظام علاقہ میں نہ رہنے کی جو بات کہی تھی اسے بھی بیان کیا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”ابوالولید! آپ اپنی سر زمین کی طرف واپس لوٹ جائیں، اللہ اس سر زمین میں کوئی بھلائی نہ رکھے جس میں آپ اور آپ جیسے لوگ نہ ہوں“، اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ عبادہ پر آپ کا حکم نہیں چلے گا، آپ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ عبادہ کی بات پر چلیں کیونکہ شرعی حکم دراصل وہی ہے جو انہوں نے بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5106، ومصباح الزجاجة: 6)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساقاة 15 (1587)، سنن ابی داود/البیوع 12 (3349)، سنن الترمذی/البیوع 23 (1240)، سنن النسائی/البیوع 42 (4567)، مسند احمد (5/314)، سنن الدارمی/البیوع 41 (2554)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2254) (صحیح)» (بوصیری کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اصل صحیحین میں عبادہ رضی اللہ عنہ سے قصہ مذکورہ کے بغیرمروی ہے، اور اس کی صورت مرسل ومنقطع کی ہے کہ قبیصہ کو قصہ نہیں ملا، امام مزی کہتے ہیں: قبیصہ کی ملاقات عبادہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی)
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک ہاتھ لو اور دوسرے ہاتھ دو۔ عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالولید ہے۔
It was narrated from Ishaq bin Qabisah from his father that :
Ubadah bin Samit Al-Ansari, head of the army unit, the Companion of the Messenger of Allah (ﷺ), went on a military campaign with Mu'awiyah in the land of the Byzantines. He saw people trading pieces of gold for Dinar and pieces of silver for Dirham. He said: "O people, you are consuming Riba (usury)! For I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: 'Do not sell gold for gold unless it is like for like; there should be no increase and no delay (between the two transactions).'" Mu'awiyah said to him: "O Abu Walid, I do not think there is any Riba involved in this , except in cases where there is a delay." 'Ubadah said to him: "I tell you a Hadith from the Messenger of Allah (ﷺ) and you tell me your opinion! If Allah brings me back safely I will never live in a land in which you have authority over me." When he returned, he stayed in Al-Madinah, and 'Umar bin Khattab said to him: "What brought you here, O Abu Walid?" So he told him the story, and what he had said about not living in the same land as Mu'awiyah. 'Umar said: "Go back to your land, O Abu Walid, for what a bad land is the land from where you and people like you are absent." Then he wrote to Mu'awiyah and said: "You have no authority over him; make the people follow what he says , for he is right."
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کروں تو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہی (خیال و گمان) رکھو کہ آپ کی بات سب سے زیادہ عمدہ، اور ہدایت و تقویٰ میں سب سے بڑھی ہوئی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9532، ومصباح الزجاجة: 7)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/415)، سنن الدارمی/المقدمة 50 (612) (ضعیف)» (عون بن عبداللہ کی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہے، سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن آگے علی رضی اللہ عنہ سے ثابت اس معنی کا قول آرہا ہے، ملاحظہ ہو حدیث نمبر: 20)
Abdullah bin Mas'ud said:
"When I tell you of a Hadith from the Messenger of Alllah (ﷺ), then think of the Messenger of Allah (ﷺ) as being the best, the utmost rightly guided and the one with the utmost Taqwa (piety, righteousness)."
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کروں تو تم یہی (خیال گمان) رکھو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سب سے زیادہ عمدہ، اور ہدایت و تقویٰ میں سب سے بڑھی ہوئی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10177، ومصباح الزجاجة: 8)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/122، 130)، سنن الدارمی/المقدمة 50 (612) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی حدیثوں کو صحیح محمل پر رکھو اور مناسب موقع پر فٹ کرو، اور اس میں تعارض اور تناقض کا خیال نہ کرو، اور جو حدیث کا منطوق ہو اسی کو تقوی اور ہدایت جانو، اور اس کے خلاف کو مطلقاً بہتر اور ہدایت نہ سمجھو۔
It was narrated that Ali bin Abu Talib said :
"When I narrate a Hadith from the Messenger of Allah (ﷺ), to you, then think of him as being the best, the most rightly guided and the one with the utmost Taqwa (piety, righteousness)"
(مرفوع) حدثنا علي بن المنذر ، حدثنا محمد بن الفضيل ، حدثنا المقبري ، عن جده ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:" لا اعرفن ما يحدث احدكم عني الحديث وهو متكئ على اريكته، فيقول: اقرا قرآنا، ما قيل من قول حسن فانا قلته". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ ، حَدَّثَنَا الْمَقْبُرِيُّ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" لَا أَعْرِفَنَّ مَا يُحَدَّثُ أَحَدُكُمْ عَنِّي الْحَدِيثَ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ، فَيَقُولُ: اقْرَأْ قُرْآنًا، مَا قِيلَ مِنْ قَوْلٍ حَسَنٍ فَأَنَا قُلْتُهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ ہرگز نہ پاؤں کہ تم میں سے کسی سے میری حدیث بیان کی جا رہی ہو اور وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے یہ کہتا ہو: قرآن پڑھو، سنو! جو بھی اچھی بات کہی گئی ہے وہ میری ہی کہی ہوئی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14336) (ضعیف جدًا) (سند میں عبد اللہ بن سعید المقبری متروک روای ہیں)»
It was narrated from Abu Hurairah that :
The Prophet said "I do not want to hear of anyone of you who, upon hearing a Hadith narrated from me, says while reclining on his pillow: 'Recite Qur'an (to verify this Hadith).' (Here the Propher SAW said) Any excellent word that is said, it is I who have said it." [How can you reject what I have said?]
ابوسلمہ (ابوسلمہ ابن عبدالرحمٰن بن عوف) سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے کہا: میرے بھتیجے! جب میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کروں تو تم اس پر کہاوتیں اور مثالیں نہ بیان کیا کرو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15032، 15070)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/ 332) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 485) (حسن)»
It was narrated from Abu Salamah that :
Abu Hurairah said to a man "O son of my brother, when I narrate a Hadith of the Messenger of Allah (ﷺ), to you, then do not try to make any examples for it."
(موقوف) قال ابو الحسن: حدثنا يحيى بن عبد الله الكرابيسي، حدثنا علي بن الجعد، عن شعبة، عن عمرو بن مرة، مثل حديث علي رضي الله عنه تعالى عنه. (موقوف) قَالَ أَبُو الْحَسَنِ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْكَرَابِيسِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، مِثْلَ حَدِيثِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَعَالَى عَنْهُ.
اس سند سے عمرو بن مرہ سے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ہم مثل مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «(ملاحظہ ہو حدیث نمبر: 20) (صحیح)»