كتاب السنة کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت 3. بَابُ: التَّوَقِّي فِي الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث کی روایت میں احتیاط۔
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں بلا ناغہ ہر جمعرات کی شام کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا، میں نے کبھی بھی آپ کو کسی چیز کے بارے میں «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم» کہتے نہیں سنا، ایک شام آپ نے کہا: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم» اور اپنا سر جھکا لیا، میں نے ان کو دیکھا کہ اپنے کرتے کی گھنڈیاں کھولے کھڑے ہیں، آنکھیں بھر آئی ہیں اور گردن کی رگیں پھول گئی ہیں اور کہہ رہے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ کم یا زیادہ یا اس کے قریب یا اس کے مشابہ فرمایا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9492، ومصباح الزجاجة: 9)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/452)، سنن الدارمی/ المقدمة 28 (278) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کمال ادب تھا کہ حدیث کی روایت میں نبی اکرم ﷺ کی طرف اس وقت تک نسبت نہ کرتے تھے جب تک خوب یقین نہ ہو جاتا کہ یہی آپ ﷺ کا فرمان ہے، اور جب ذرا سا بھی گمان اور شبہہ ہوتا تو اس خوف سے ڈر جاتے کہ کہیں آپ ﷺ پر جھوٹ نہ باندھ دیں، کیونکہ جو آپ ﷺ پر جھوٹ باندھے صحیح حدیث کی روشنی میں اس پر جہنم کی وعید ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کرتے، اور اس سے فارغ ہوتے تو کہتے: «أو كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم» ”یا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1469، ومصباح الزجاجة: 10)، وقد أخرجہ: دي المقدمة 28 (284) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: گویا یہ کہہ کر وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم نے تم سے جو یہ حدیث بیان کی ہے وہ روایت بالمعنی ہے، رہے الفاظ تو ہو سکتا ہے کہ ہو بہو یہی الفاظ رہے ہوں یا الفاظ کچھ بدلے ہوں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہم نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کریں، تو وہ کہنے لگے: ہم بوڑھے ہو گئے ہیں، ہم پر نسیان غالب ہو گیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرنا مشکل کام ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3674، ومصباح الزجاجة: 11)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/370، 372) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن ابی السفر کہتے ہیں کہ میں نے شعبی کو کہتے سنا: میں سال بھر ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مجلسوں میں رہا لیکن میں نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أخبار الآحاد 6 (7267)، صحیح مسلم/الصید 7 (1944)، (تحفة الأشراف: 7111)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/84، 137، 157) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا: ہم تو بس حدیثیں یاد کرتے تھے اور حدیث رسول تو یاد کی ہی جاتی ہے، لیکن جب تم مشکل اور آسان راستوں پر چلنے لگے تو ہم نے دوری اختیار کر لی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المقدمة 4 (20)، (تحفة الأشراف: 5717) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ کنایہ ہے افراط و تفریط سے، یعنی جب تم نقل میں افراط و تفریط سے کام لینے لگے اور احتیاط کا دامن چھوڑ دیا، تو ہم نے بھی احتیاط کی روش اختیار کی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
قرظہ بن کعب کہتے ہیں کہ ہمیں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کوفہ بھیجا، اور ہمیں رخصت کرنے کے لیے آپ ہمارے ساتھ مقام صرار تک چل کر آئے اور کہنے لگے: کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیوں چل کر آیا ہوں؟ قرظہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے حق اور انصار کے حق کی ادائیگی کی خاطر آئے ہیں، کہا: نہیں، بلکہ میں تمہارے ساتھ ایک بات بیان کرنے کے لیے آیا ہوں، میں نے چاہا کہ میرے ساتھ آنے کی وجہ سے تم اسے یاد رکھو گے: ”تم ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہو جن کے سینوں میں قرآن ہانڈی کی طرح جوش مارتا ہو گا، جب وہ تم کو دیکھیں گے تو (مارے شوق کے) اپنی گردنیں تمہاری طرف لمبی کریں گے ۱؎، اور کہیں گے: یہ اصحاب محمد ہیں، تم ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں کم بیان کرنا، جاؤ میں بھی تمہارا شریک ہوں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10625، ومصباح الزجاجة: 12)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المقدمة 28 (687) (صحیح) (اس کی سند میں مجالد بن سعید ضعیف ہیں، لیکن حاکم کی سند کی متابعت سے یہ صحیح ہے، حاکم نے اس کو اپنی مستدرک میں صحیح الإسناد کہا ہے، اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)»
وضاحت: ۱؎: تاکہ وہ تمہاری باتیں سن سکیں اور تم سے استفادہ کر سکیں۔ اس سے مراد احادیث کے بیان کرنے میں احتیاط کو ملحوظ رکھنے کی طرف توجہ مبذول کرانا تھا، اور یہ ایسی بات ہے جس کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ گویا اس سے اصل مقصد احادیث کو تحقیق کے ساتھ بیان کرنے کی اہمیت کو بیان کرنا تھا تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط نسبت نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ سے مکہ تک گیا، لیکن راستے بھر میں نے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بھی بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3855، ومصباح الزجاجة: 13)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد والسیر 26 (2824)، سنن الدارمی/المقدمة 28 (286) (صحیح)»
وضاحت: اس کی وجہ وہی احتیاط ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی، تاہم وہ لوگوں کو مسائل بیان فرماتے اور ان کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے اور یہ سب کچھ احادیث ہی سے ماخوذ ہوتا تھا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|