كتاب السنة کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت 7. بَابُ: اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ باب: بدعات اور جدال (بے جا بحث و تکرار) سے اجتناب و پرہیز۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ، آواز بلند اور غصہ سخت ہو جاتا، گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی (حملہ آور) لشکر سے ڈرانے والے اس شخص کی طرح ہیں جو کہہ رہا ہے کہ لشکر تمہارے اوپر صبح کو حملہ کرنے والا ہے، شام کو حملہ کرنے والا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”میں اور قیامت دونوں اس طرح قریب بھیجے گئے ہیں“، اور (سمجھانے کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہادت والی اور بیچ والی انگلی ملاتے پھر فرماتے: ”حمد و صلاۃ کے بعد! جان لو کہ سارے امور میں سے بہتر اللہ کی کتاب (قرآن) ہے، اور راستوں میں سے سب سے بہتر محمد کا راستہ (سنت) ہے، اور سب سے بری چیز دین میں نئی چیزیں (بدعات) ہیں ۱؎، اور ہر بدعت (نئی چیز) گمراہی ہے“۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو مرنے والا مال و اسباب چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو قرض یا اہل و عیال چھوڑے تو قرض کی ادائیگی، اور بچوں کی پرورش میرے ذمہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجمعة 13 (867)، سنن النسائی/العیدین 21 (1579)، (تحفة الأشراف: 2599)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الخراج 15 (2954)، مسند احمد (3/311، 319، 338، 371، سنن الدارمی/المقدمة 23 (212)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2416) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «محدثات» نئی چیزوں سے مراد ہر وہ چیز جو نبی ﷺ کے بعد دین میں ایجاد کر لی گئی ہو، اور کتاب و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس دو ہی چیزیں ہیں، ایک کلام اور دوسری چیز طریقہ، تو سب سے بہتر کلام اللہ کا کلام (قرآن مجید) ہے، اور سب سے بہتر طریقہ (سنت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سنو! تم اپنے آپ کو دین میں نئی چیزوں سے بچانا، اس لیے کہ دین میں سب سے بری چیز «محدثات» (نئی چیزیں) ہیں، اور ہر «محدث» (نئی چیز) بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ سنو! کہیں شیطان تمہارے دلوں میں زیادہ زندہ رہنے اور جینے کا وسوسہ نہ ڈال دے، اور تمہارے دل سخت ہو جائیں ۱؎۔ خبردار! آنے والی چیز قریب ہے ۲؎، دور تو وہ چیز ہے جو آنے والی نہیں۔ خبردار! بدبخت تو وہی ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں بدبخت لکھ دیا گیا، اور نیک بخت وہ ہے جو دوسروں کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرے۔ آگاہ رہو! مومن سے جنگ و جدال اور لڑائی جھگڑا کرنا کفر ہے، اور اسے گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق کرے ۳؎۔ سنو! تم اپنے آپ کو جھوٹ سے بچانا، اس لیے کہ جھوٹ سنجیدگی یا ہنسی مذاق (مزاح) میں کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے ۴؎، کوئی شخص اپنے بچے سے ایسا وعدہ نہ کرے جسے پورا نہ کرے ۵؎، جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے، اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے، اور سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے، اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، چنانچہ سچے آدمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے سچ کہا اور نیک و کار ہوا، اور جھوٹے آدمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا اور گناہ گار ہوا۔ سنو! بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کذاب (جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9524، ومصباح الزجاجہ: 17) (ضعیف)» (عبید بن میمون مجہول الحال راوی ہیں، اس لئے یہ سند ضعیف ہے، اور یہ سیاق بھی کہیں اورموجود نہیں ہے، لیکن حدیث کے فقرات اور متابعات وشواہد کی وجہ سے صحیح ہیں، نیز ملاحظہ ہو: فتح الباری: 10/511 و 13/ 252، و صحیح البخاری: 6094، ومسلم: 2606-2647، وابوداود: 4989، والترمذی: 972، والموطا/ الکلام: 16، ومسند احمد: 1/384 - 405، والدارمی: 2757)
وضاحت: ۱؎: یعنی شیطان تمہیں دھوکا نہ دے کہ ”ابھی تمہاری زندگی بہت باقی ہے، دنیا میں عیش و عشرت کر لو، دنیا کے مزے لے لو، آخرت کی فکر پھر کر لینا“، کیونکہ اس سے آدمی کا دل سخت ہو جاتا ہے، اور زاد آخرت کے حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے۔ ۲؎: ”آنے والی چیز“ یعنی موت یا قیامت۔ ۳؎: بلا وجہ ترک تعلق جائز نہیں اور اگر کوئی معقول وجہ ہے تو تین دن کی تنبیہ کافی ہے، اور اگر ترک تعلق کا سبب فسق و فجور ہے تو جب تک وہ توبہ نہ کرلے اس وقت تک نہ ملے۔ ۴؎: اس سے مطلقاً جھوٹ کی حرمت ثابت ہوتی ہے، خواہ ظرافت ہو یا عدم ظرافت۔ ۵؎: اس میں اولاد سے بھی وعدہ میں جھوٹ نہ بولنے کی ہدایت ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی: «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب وأخر متشابهات» اللہ تعالیٰ کے یہ فرمان «وما يذكر إلا أولو الألباب» تک: (سورة آل عمران: 7)، یعنی: ”وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب اتاری، جس میں اس کی بعض آیات معلوم و متعین معنی والی محکم ہیں جو اصل کتاب ہیں، اور بعض آیات متشابہ ہیں، پس جن کے دلوں میں کجی اور ٹیڑھ ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ پھیلائیں اور ان کے معنی مراد کی جستجو کریں، حالانکہ ان کے حقیقی معنی مراد کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان رکھتے ہیں، یہ تمام ہمارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں“۔ اور (آیت کی تلاوت کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! جب ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات میں جھگڑتے اور بحث و تکرار کرتے ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اس آیت کریمہ میں مراد لیا ہے، تو ان سے بچو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: 16236)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر آل عمرآن 1 (4547)، صحیح مسلم/العلم 1 (2665)، سنن ابی داود/السنة 2 (4598)، سنن الترمذی/التفسیر 4 (2993، 2994)، مسند احمد (6 / 48)، سنن الدارمی/المقدمة 19 (147) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پوری آیت اس طرح ہے: «يضاجعها» «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب وأخر متشابهات فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغائ الفتنة وابتغائ تأويله وما يعلم تأويله إلا الله والراسخون في العلم يقولون آمنا به كل من عند ربنا وما يذكر إلا أولوا الألباب» (سورۃ آل عمران: ۷)۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کو دو قسموں محکم اور متشابہ میں تقسیم کیا ہے، محکم اسے کہتے ہیں جس کی دلالت اور جس کا معنی پوری طرح واضح اور ظاہر ہو، اور جس میں کسی طرح کی تاویل اور تخصیص کا احتمال نہ ہو، اور اس پر عمل کرنا واجب ہے، اور متشابہ یہ ہے کہ جس کے معنی تک مجتہد نہ پہنچ پائے، یا وہ مجمل کے معنی میں ہے جس کی دلالت واضح نہ ہو، یا متشابہ وہ ہے جس کی معرفت کے لئے غور و فکر، تدبر اور قرائن کی ضرورت ہو، جس کی موجودگی میں اس کے مشکل معنی کو سمجھا جا سکے، اور محکم کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اصل کتاب فرمایا، پس اہل علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ متشابہ کو محکم سے ملا کر اس کے معنی کو سمجھیں، اور یہی طریقہ سلف کا ہے کہ متشابہ کو محکم کی طرف پھیر دیتے تھے اور یہ جو فرمایا کہ جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں اس متشابہ کی، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ متشابہ کو محکم کی طرف نہیں پھیرتے کہ اس سے مشتبہ وجوہ سے صحیح وجوہ ان کے ہاتھ آ جائے بلکہ دوسری وجوہ باطلہ پر اس کو اتارتے ہیں اور اس میں وہ تمام اقوام باطلہ داخل ہیں جو حق سے پھری ہوئی ہیں اور «وما يعلم تأويله إلا الله» میں مفسرین کے دو قول ہیں: پہلا یہ کہ یہاں وقف ہے، یعنی «إلا الله» پر اور یہیں پر کلام تمام ہو گیا، اور اس صورت میں آیت سے مراد یہ ہو گا کہ تاویل یعنی متشابہات کی حقیقت کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا، اور اکثر مفسرین اسی کی طرف گئے ہیں، اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں وقف نہیں ہے، اور «والراسخون في العلم» معطوف ہے اپنے ماقبل والے جملہ پر یعنی ان متشابہات کا علم اور ان کی تاویل و تفسیر اللہ تبارک و تعالیٰ اور علماء راسخین کو معلوم ہے، بعض مفسرین اس طرف بھی گئے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی قوم ہدایت پر رہنے کے بعد گمراہ اس وقت ہوئی جب وہ «جدال» (بحث اور جھگڑے) میں مبتلا ہوئی“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: «بل هم قوم خصمون» ”بلکہ وہ جھگڑالو لوگ ہیں“ (سورة الزخرف: 58) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/التفسیر 44 (3253)، (تحفة الأشراف: 4936)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/252، 256) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: پوری آیت یوں ہے: «ولما ضرب ابن مريم مثلا إذا قومك منه يصدون (57) وقالوا أآلهتنا خير أم هو ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون» (سورة الزخرف: 58) ”اور جب عیسی ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو آپ کی قوم اس پر خوشی سے چیخنے چلانے لگی ہے، اور کہتی ہے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ؟ ان کا آپ سے یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ وہ لوگ جھگڑالو ہیں ہی“۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابن الزبعری نے رسول اللہ ﷺ سے بحث و مجادلہ کیا تھا، اور اس کی کیفیت یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: «إنكم وما تعبدون من دون الله حصب جهنم» ”تم اور تمہارے معبودان باطل جہنم کا ایندھن ہیں“ (سورة الأنبياء: 98)، تو ابن الزبعری نے آپ ﷺ سے کہا کہ میں آپ سے بحث و حجت میں جیت گیا، قسم ہے رب کعبہ کی! بھلا دیکھو تو نصاری مسیح کو، اور یہود عزیر کو پوجتے ہیں، اور اسی طرح بنی ملیح فرشتوں کو، سو اگر یہ لوگ جہنم میں ہیں تو چلو ہم بھی راضی ہیں کہ ہمارے معبود بھی ان کے ساتھ رہیں، سو کفار فجار اس پر بہت ہنسے اور قہقہے لگانے لگے، تو اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری: «إن الذين سبقت لهم منا الحسنى أولئك عنها مبعدون» ”بیشک جن کے لیے ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہے، وہ سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے“ (سورة الأنبياء: 101)۔ حقیقت میں ابن الزبعری کا اعتراض حماقت سے بھرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے «وما تعبدون» فرمایا ہے، یعنی جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اور لفظ «ما» عربی میں غیر ذوی العقول کے لئے آتا ہے، ملائکہ اور انبیاء ذوی العقول ہیں، اس لئے وہ اس میں کیوں کر داخل ہوں گے، اور باوجود اہل لسان ہونے کے اس کو اس طرف خیال نہ ہوا۔ «جدال» کہتے ہیں حق کے مقابلے میں باطل اور جھوٹی باتیں بنانے کو اور اسی قبیل سے ہے قیاس اور رائے کو دلیل و حجت کے آگے پیش کرنا، یا کسی امام اور عالم کا قول حدیث صحیح کے مقابل میں پیش کرنا، خلاصہ کلام یہ کہ حق کے رد و ابطال میں جو بات بھی پیش کی جائے گی وہ جدال ہے، جس کی قرآن کریم میں بکثرت مذمت وارد ہوئی ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کسی بدعتی کا روزہ، نماز، صدقہ و زکاۃ، حج، عمرہ، جہاد، نفل و فرض کچھ بھی قبول نہیں کرتا، وہ اسلام سے اسی طرح نکل جاتا ہے جس طرح گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3369، ومصباح الزجاجة: 18) (موضوع)» (اس کی سند میں محمد بن محصن العکاشی کذاب راوی ہے، نیزملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1493)
قال الشيخ الألباني: موضوع
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کسی بدعتی کا عمل قبول نہیں فرماتا جب تک کہ وہ اپنی بدعت ترک نہ کر دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6569، ومصباح الزجاجة: 19) (ضعیف)» (سند میں ابوزید اور ابو المغیرہ دونوں مجہول راوی ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الا ٔلبانی: رقم: 148، وسلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1492)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا اور وہ باطل پر تھا تو اس کے لیے جنت کے کناروں میں ایک محل بنایا جائے گا، اور جس نے حق پر ہونے کے باوجود بحث اور کٹ حجتی چھوڑ دی اس کے لیے جنت کے بیچ میں محل بنایا جائے گا، اور جس نے اپنے آپ کو حسن اخلاق سے مزین کیا اس کے لیے جنت کے اوپری حصہ میں محل بنایا جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البر والصلة 58 (1993)، (تحفة الأشراف: 868) (ضعیف)» (اس حدیث کی امام ترمذی نے تحسین فرمائی ہے، لیکن اس کی سند میں سلمہ بن وردان منکرالحدیث راوی ہیں، اور متن مقلوب ہے جس کی وضاحت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے، ملاحظہ ہو: سنن ابی داود: 4800)
قال الشيخ الألباني: سنده ضعيف
|