كتاب السنة کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت 10. بَابٌ في الْقَدَرِ باب: قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو صادق و مصدوق (یعنی جو خود سچے ہیں اور سچے مانے گئے ہیں) نے بیان کیا کہ ”پیدائش اس طرح ہے کہ تم میں سے ہر ایک کا نطفہ خلقت ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رکھا جاتا ہے، پھر وہ چالیس دن تک جما ہوا خون رہتا ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس چار باتوں کا حکم دے کر ایک فرشتہ بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس فرشتہ سے کہتا ہے: اس کا عمل، اس کی مدت عمر، اس کا رزق، اور اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا لکھو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی جنت والوں کا عمل کر رہا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس پر اس کا مقدر غالب آ جاتا ہے (یعنی لکھی ہوئی تقدیر غالب آ جاتی ہے)، اور وہ جہنم والوں کا عمل کر بیٹھتا ہے، اور اس میں داخل ہو جاتا ہے، اور تم میں سے کوئی جہنم والوں کا عمل کر رہا ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، کہ اس پر لکھی ہوئی تقدیر غالب آ جاتی ہے، اور وہ جنت والوں کا عمل کرنے لگتا ہے، اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (3208)، الانبیاء 1 (3332)، القدر 1 (6594)، التوحید 28 (7454)، صحیح مسلم/القدر1 (2643)، سنن ابی داود/السنة 17 (4708)، سنن الترمذی/القدر 4 (2137)، (تحفة الأشراف: 9228)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/382، 414، 430) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمل، اجل (عمر) رزق اور سعادت و شقاوت (خوش نصیبی، اور بدنصیبی) یہ سب تقدیر سے ہے، اور اس کو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے حق میں پہلے ہی لکھ دیا ہے، اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، اس لئے ہر آدمی کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت و اطاعت رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق کرکے تقدیر کو اپنے حق میں مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «وأن ليس للإنسان إلا ما سعى» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں کہ میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے، اور مجھے ڈر لاحق ہوا کہ کہیں یہ شبہات میرے دین اور میرے معاملے کو خراب نہ کر دیں، چنانچہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور عرض کیا: ابوالمنذر! میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات وارد ہوئے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرا دین اور میرا معاملہ خراب نہ ہو جائے، لہٰذا آپ اس سلسلہ میں مجھ سے کچھ بیان کریں تاکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے کچھ فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور وہ ظالم نہیں ہو گا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے حق میں ان کے اعمال سے زیادہ بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو (یا کہا: احد پہاڑ کے برابر مال ہو) اور تم اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دو، تو یہ اس وقت تک قبول نہیں ہو گا جب تک کہ تم تقدیر پہ ایمان نہ لاؤ، تم یہ یقین رکھو کہ جو (خیر و شر) تمہیں پہنچا وہ تم سے چوکنے والا نہ تھا، اور جو تمہیں نہیں پہنچا وہ تمہیں پہنچنے والا نہیں تھا ۱؎، اور اگر تم اس اعتقاد کے علاوہ پر مرے تو جہنم میں داخل ہو گے، اور کوئی حرج نہیں کہ تم میرے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، عبداللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں: میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے پوچھا، تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو ابی رضی اللہ عنہ نے بتایا تھا، اور مجھ سے کہا: کوئی مضائقہ نہیں کہ تم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ چنانچہ میں حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو ان دونوں (ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے بتایا تھا، اور انہوں نے کہا: تم زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے بھی پوچھ لو۔ چنانچہ میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے بھی پوچھا، تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور وہ ظالم نہیں ہو گا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے حق میں ان کے اعمال سے بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد کے برابر سونا یا احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، اور تم اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ اس وقت تک تمہاری جانب سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہ ہو گا جب تک کہ تم پوری تقدیر پہ کلی طور پر ایمان نہ لاؤ، اور تم یہ یقین رکھو کہ جو (خیر و شر) تمہیں پہنچا ہے تم سے چوکنے والا نہ تھا، اور جو تم سے چوک گیا وہ تمہیں پہنچنے والا نہیں تھا، اور اگر تم اس عقیدہ کے علاوہ پر مرے تو جہنم میں داخل ہو گے“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/السنة 17 (4699)، (تحفة الأشراف: 52، 3726، 9348)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/182، 185، 189) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں ایمان کے مزہ اور اس کی حلاوت و شیرینی کا ذکر ہے جو محسوس اشیاء کے مزہ کی طرح نہیں ہے، دنیاوی کھانے پینے کا ایک مزہ ہوتا ہے، دوسری چیز کھانے کے بعد پہلی چیز کا مزہ جاتا رہتا ہے، لیکن ایمان کی حلاوت تا دیر باقی رہتی ہے، حتی کہ آدمی کبھی خلوص دل، حضور قلب اور خشوع و خضوع کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اس کی حلاوت اسے مدتوں محسوس ہوتی ہے، لیکن اس ایمانی حلاوت اور مزہ کا ادراک صرف اسی کو ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے بہرہ ور کیا ہو۔ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مقدر کر رکھا ہے، تقدیر کو اصابت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ تقدیر کا لکھا ہو کر رہے گا، تو جو کچھ تقدیر تھی اللہ تعالیٰ نے اسے بندہ کے حق میں لکھ دی ہے وہ اس کو مل کر رہے گی، مقدر کو ٹالنے کے اسباب اختیار کرنے کے بعد بھی وہ مل کر رہے گا، انسان سے وہ خطا نہیں کرے گا۔ ایک معنی یہ بھی ہے کہ تم کو جو کچھ بھی پہنچ گیا ہے اس کے بارے میں یہ نہ سوچو کہ وہ تم سے خطا کرنے والی چیز ہے، تو یہ نہ کہو کہ اگر میں نے ایسے ایسے کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا، اس لئے کہ اس وقت تم جس حالت سے دور چار ہوئے اس کا ٹلنا ناممکن ہے، تو تمہارا ہر اندازہ اور ہر تدبیر اس تقدیر کے وقوع پذیر ہونے میں غیر موثر ہے، حدیث کی شرح دونوں معنوں میں صحیح ہے، پس اللہ تعالیٰ نے بندہ کے حق میں جو کچھ مقدر کر رکھا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا، اس کا خطا کرجانا ناممکن ہے، اس بات پر ایمان کے نتیجہ میں مومن ایمان کا مزہ چکھے گا، اس لئے کہ اس ایمان کی موجودگی میں آدمی کو اس بات کا علم اور اس پر اطمینان ہو گا کہ مقدر کی بات لابدی اور ضروری طور پر واقع ہو گی، اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک آدمی اپنے بچوں کو لے کر کسی تفریح گاہ میں سیر و تفریح کے لئے جاتا ہے، اور اس کا بچہ وہاں گہرے پانی میں ڈوب کر مر جاتا ہے، تو یہ کہنا صحیح نہیں کہ اگر وہ سیر کے لئے نہ نکلا ہوتا تو وہ بچہ نہ مرتا، اس لئے کہ جو کچھ ہوا یہ اللہ کی طرف سے مقدر تھا، اور تقدیر کے مطابق لازمی طور پر ہوا جس کو روکا نہیں جا سکتا تھا، تو جو کچھ ہونے والی چیز تھی اس نے خطا نہیں کی، ایسی صورت میں انسان کو اطمینان قلب حاصل ہو جاتا ہے اور وہ اس صورت حال پر اللہ کے فیصلہ پر صبر کرتا ہے بلکہ اس پر راضی ہوتا ہے، اور اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا اس سے فرار کی کوئی صورت نہیں تھی، اور دل میں ہر طرح کے اٹھتے خیالات اور اندازے سب شیطانی وساوس کے قبیل سے ہیں، پس آدمی کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو ایسا اور ایسا ہوتا، کیونکہ «لو» شیطان کی دخل اندازی کا راستہ کھول دیتا ہے، اس معنی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے: «ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها إن ذلك على الله يسير (۲۲) لكيلا تأسوا على ما فاتكم ولا تفرحوا بما آتاكم والله لا يحب كل مختال فخور» یعنی: ”نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے، نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے، تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو، اور نہ عطا کردہ چیز پر اترا جاؤ، اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔“ (سورۃ الحدید: ۲۲-۲۳) آدمی اگر تقدیر پر یقین کرے تو مصائب و حوادث پر اس کو اطمینان قلب ہو گا، اور وہ اس پر صبر کرے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہو گا، اور اسے ایمان کی حلاوت کا احساس ہو گا۔ حدیث کا دوسرا ٹکڑا: «وما أخطأك لم يكن يصيبك» پہلے فقرے ہی کے معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو تقدیر میں نہ ہونا لکھ دیا ہے، وہ کبھی واقع نہیں ہو سکتی، مثلاً اگر ایک آدمی نے کسی تجارت گاہ کا رخ کیا، لیکن وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ بازار بند ہو گیا، تو اس کو کہا جائے گا کہ یہ تجارتی فائدہ جو تم کو نہ ملا، اسے تم کو ہرگز ہرگز نہ ملنا تھا چاہے تم اس کے لئے جتنا بھی جتن اور کوشش کرتے، یا ہم یہ کہیں کہ یہ تم کو حاصل ہونے والا نہ تھا اس لئے کہ معاملہ اللہ کے قضا و قدر کے مطابق طے ہونا تھا، آدمی کو اس عقیدہ کا تجربہ کرکے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اس کے بعد اس کو ایمان کی حلاوت کا احساس ہوا یا نہیں۔ ۲؎: سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ انسان تقدیر پر ایمان رکھے، اور شیطانی وسوسوں سے بچے، اور تقدیر کے منکروں سے میل جول نہ رکھے بلکہ ان سے دور رہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کے اچھے اعمال بغیر ایمان کے ہرگز قبول نہیں ہوتے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر انسان اس قضا و قدر کے اسلامی عقیدہ کے سوا کسی اور عقیدہ پر مرا تو وہ جہنم میں جائے گا، مراد اس سے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا نہیں ہے، جیسے کافروں کے لئے جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے، اس لئے کہ اہل قبلہ اپنے گناہوں کی سزا میں عذاب پانے کے بعد اگر وہ موحد ہیں تو جہنم سے نکالے جائیں گے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زمین کو کریدا، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: ”جنت و جہنم میں ہر شخص کا ٹھکانہ لکھ دیا گیا ہے“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اس پر بھروسہ نہ کر لیں (اور عمل چھوڑ دیں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، عمل کرو، اور صرف لکھی تقدیر پر بھروسہ نہ کر کے بیٹھو، اس لیے کہ ہر ایک کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «فأما من أعطى واتقى وصدق بالحسنى فسنيسره لليسرى وأما من بخل واستغنى وكذب بالحسنى فسنيسره للعسرى»، یعنی: ”جس نے اللہ کی راہ میں دیا اپنے رب سے ڈرا، اور اچھی بات کی تصدیق کرتا رہا، تو ہم بھی اس پر سہولت کا راستہ آسان کر دیں گے، لیکن جس نے بخیلی کی، لاپرواہی برتی اور اچھی بات کو جھٹلایا تو ہم بھی اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے“ (سورة الليل: 5-10) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 82 (1362)، تفسیر القرآن 92 (4945)، الأدب 120 (6217)، القدر 4 (6605)، التوحید 54 (7552)، صحیح مسلم/القدر 1 (2647)، سنن ابی داود/السنة 17 (4694)، سنن الترمذی/القدر 3 (2136)، التفسیر 80 (3344)، (تحفة الأشراف: 10167)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/82، 129، 13، 140) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس میں ان شیطانی وسوسوں کا جواب ہے جو اکثر لوگوں کے ذہنوں میں آتے رہتے ہیں کہ جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے تو اب عمل کیونکر کریں؟ لیکن نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”عمل کرو، تقدیر پر بھروسہ کر کے بیٹھ نہ جاؤ، کیونکہ ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے“، اس لئے نیک عمل کرتے رہنا چاہیے کیونکہ یہی جنت میں جانے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے مستحق بننے کا ذریعہ ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پیارا ہے ۱؎، دونوں میں سے ہر ایک میں خیر ہے، ہر اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں نفع دے، اور اللہ سے مدد طلب کرو، دل ہار کر نہ بیٹھ جاؤ، اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش کہ میں نے ایسا ویسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: جو اللہ نے مقدر کیا تھا اور جو اس نے چاہا کیا، اس لیے کہ ”اگر مگر“ شیطان کے عمل کے لیے راستہ کھول دیتا ہے“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القدر 8 (2664)، سنن النسائی/ في الیوم واللیلة (625)، (تحفة الأشراف: 13965)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/ 366، 37)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 4168) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ وہ عبادت کی ادائیگی اور فرائض و سنن، اور دعوت و تبلیغ اور معاشرتی خدمت وغیرہ امور کے قیام میں کمزور مومن سے زیادہ مستعد اور توانا ہوتا ہے۔ ۲؎: یعنی اگر مگر سے شیطان کو گمراہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدم و موسیٰ علیہا السلام میں مناظرہ ہوا، موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ نے ہمیں ناکام و نامراد بنا دیا، اور اپنے گناہ کے سبب ہمیں جنت سے نکال دیا، تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنی ہم کلامی کے لیے منتخب کیا، اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی، کیا تم مجھ کو ایک ایسے عمل پر ملامت کرتے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا!“، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”چنانچہ آدم موسیٰ پر غالب آ گئے، آدم موسیٰ پر غالب آ گئے، آدم موسیٰ پر غالب آ گئے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التفسیر سورة طہ 1 (4736)، القدر 11 (6614)، صحیح مسلم/القدر 2 (2652)، (تحفة الأشراف: 13529)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/السنة 17 (4701)، سنن الترمذی/القدر 2 (2135)، موطا امام مالک/القدر 1 (1)، مسند احمد (2/248، 268) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے اور ان سے جیت گئے یعنی انہیں اس بات کا قائل کر لیا کہ بندہ اپنے افعال میں خود مختار نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جس کام کو اس کے لئے مقدر کر دیا ہے اس کے نہ کرنے پر وہ قادر نہیں، لہذا جو کچھ انہوں نے کیا اس پر انہیں ملامت کرنا درست نہیں، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے موسی علیہ السلام سے پوچھا کہ تم نے تورات میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے کتنے برس پہلے تورات لکھی؟ انہوں نے کہا: چالیس برس، پھر آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے اس میں پڑھا ہے: «وعصى آدم ربه فغوى» یعنی ”آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی، تو راہ بھول گئے“، انہوں نے کہا: ہاں، آدم علیہ السلام نے فرمایا: پھر بھلا تم مجھے کیا ملامت کرتے ہو؟ باقی وہی مضمون ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے تین بار فرمایا کہ آدم علیہ السلام جیت گئے، اور یہ تکرار تاکید کے لئے تھی تاکہ بخوبی یہ بات سمجھ لی جائے کہ آدم علیہ السلام مستقل فاعل نہ تھے کہ فعل و ترک کا اختیار کامل رکھتے ہوں، بلکہ جو تقدیر الٰہی تھی اس کا ان سے وقوع ہوا، اور اللہ کی مرضی و مشیت کا ہونا ضروری تھا، گویا کہ آدم علیہ السلام نے یہ کہا کہ پھر تم اس علم سابق سے جو بذریعہ تورات تمہیں حاصل ہو چکا ہے کیوں غافل ہوتے ہو، اور صرف میرے کسب (یعنی فعل اور کام) کو یاد کرتے ہو، جو صرف سبب تھا، اور اصل سے غفلت کرتے ہو جو تقدیر الٰہی تھی اور تم جیسے منتخب اور پسندیدہ اور اسرار و رموز الٰہی کے واقف کار سے یہ بات نہایت بعید ہے، اور ان دونوں نبیوں میں یہ گفتگو عالم تکلیف و اسباب میں نہیں ہوئی کہ یہاں وسائط و اکتساب سے قطع نظر اور وسائل اور مواصلات سے چشم پوشی جائز نہیں بلکہ عالم علوی میں ہوئی جو اہل تقوی کی ارواح کے اکٹھا ہونے کی جگہ ہے، اور مکلف اس وقت تک ملامت کا مستحق ہو گا جب وہ عہد تکلیف و مسئولیت میں ہو تو اس پر ملامت امر معروف میں داخل ہے، اور معاصی سے ممانعت کا سبب ہے، اور دوسروں کے لئے عبرت اور موعظت کا سبب ہے، اور جب آدمی تکلیف و مسئولیت کے مقام سے نکل گیا تو اب وہ ملامت کا مستحق نہ رہا بلکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو چیز مقدر کر دی تھی اس کا ظہور ہوا، اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ گفتگو اس وقت ہوئی جب آدم علیہ السلام تائب ہو چکے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی تھی، اور تائب ملامت کے لائق نہیں ہوتا، مقصد یہ ہے کہ اس واقعہ سے فساق و فجار اپنے فسق و فجور اور بد اعمالیوں پر استدلال نہیں کر سکتے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص چار چیزوں پر ایمان لائے بغیر مومن نہیں ہو سکتا: اللہ واحد پر جس کا کوئی شریک نہیں، میرے اللہ کے رسول ہونے پر، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر، اور تقدیر پر“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القدر 10 (2145)، (تحفة الأشراف: 10089)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/97، 133) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے ایک بچے کے جنازے میں بلائے گئے، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس بچہ کے لیے مبارک باد ہو، وہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، نہ تو اس نے کوئی برائی کی اور نہ ہی برائی کرنے کا وقت پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ بات یوں نہیں ہے، بلکہ اللہ نے جنت کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ابھی اپنے والد کی پشت میں تھے، اور جہنم کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ابھی اپنے والد کی پشت میں تھے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القدر (2662)، سنن ابی داود/السنة 18 (4713)، سنن النسائی/الجنائز 58 (1949)، (تحفة الأشراف: 17873)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/41، 208) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس بچے نے کوئی گناہ نہ کیا اس لئے یہ تو یقینا جنتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس یقین کی تردید فرمائی کہ بلا دلیل کسی کو جنتی کہنا صحیح نہیں، جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ نے انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی کر دیا ہے، اور وہ ہمیں معلوم نہیں تو ہم کسی کو حتمی اور یقینی طور پر جنتی یا جہنمی کیسے کہہ سکتے ہیں، یہ حدیث ایک دوسری حدیث سے معارض معلوم ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان بچے جو بچپن ہی میں مر جائیں گے اپنے والدین کے ساتھ ہوں گے، نیز علماء کا اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنتی ہیں، اس حدیث کا یہ جواب دیا گیا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو جنتی یا جہنمی کا فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے روکنا مقصود تھا، بعض نے کہا: یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ ﷺ کو بتایا نہیں گیا تھا کہ مسلم بچے جنتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکین قریش نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے تقدیر کے سلسلے میں جھگڑنے لگے، تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «يوم يسحبون في النار على وجوههم ذوقوا مس سقر إنا كل شيء خلقناه بقدر» یعنی: ”جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا: جہنم کی آگ لگنے کے مزے چکھو، بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے پر پیدا کیا ہے“ (سورۃ القمر: ۴۹) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القدر 4 (2656)، سنن الترمذی/القدر 19 (2157)، (تحفة الأشراف: 14589)، مسند احمد (2/444، 476) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بغوی نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ جو چیز ہم نے پیدا کی ہے وہ تقدیر سے ہے یعنی وہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے، حسن بصری نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہر چیز کا اندازہ کیا کہ اس کے موافق وہ پیدا ہوتی ہے، اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیر لکھی“، اور فرمایا: ”رب العالمین کا عرش اس وقت پانی پر تھا“، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر چیز قدر سے ہے یہاں تک کہ نادانی و دانائی بھی“، فتح البیان میں ہے کہ اثبات قدر سے جو بعضوں کے خیال میں آتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کا مجبور و مقہور کر دینا ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے علم قدیم کی خبر ہے کہ بندے کیا کمائیں گے، اور ان کے افعال کا صدور خیر ہو یا شر اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے تقدیر کے سلسلے میں کچھ ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو تقدیر کے سلسلے میں ذرا بھی بحث کرے گا اس سے قیامت کے دن اس سلسلے میں سوال کیا جائے گا، اور جو اس سلسلہ میں کچھ نہ کہے تو اس سے سوال نہیں ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16265، ومصباح الزجاجة: 28) (ضعیف)» (سند میں واقع دو راوی یحییٰ بن عثمان منکر الحدیث اور یحییٰ بن عبد اللہ لین الحدیث ہیں، ملاحظہ: المشکاة: 114)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوالحسن القطان نے کہا: ہمیں خازم بن یحیٰی نے انہیں عبدالملک بن سنان نے انہیں یحیٰی بن عثمان نے اسی (مالک بن اسماعیل) کی مثل روایت بیان کی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)» (سبب ضعف کے لئے ملاحظہ ہو: اس سے پہلے کی حدیث)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس آئے، وہ لوگ اس وقت تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سخت غصہ کی وجہ سے سرخ ہو گیا، گویا کہ آپ کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا تم اسی لیے پیدا کیے گئے ہو؟ تم قرآن کے بعض حصہ کو بعض حصہ سے ٹکرا رہے ہو، اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوئی ہیں“ ۱؎۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا بیان ہے: میں نے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے غیر حاضر ہونے کی ایسی خواہش اپنے جی میں نہیں کی جیسی اس مجلس سے غیر حاضر رہنے کی خواہش کی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8704، ومصباح الزجاجة: 29)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/196، 178) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں کرنی چاہئے، جتنی اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی ہے اسی پر ایمان کافی ہے، اور اس کے بارے میں زیادہ غور و خوض اور قیل و قال، باطل میں قیل و قال کرنا ہے، اور اس طرح باقی امور جس میں شارع نے اجمال و اختصار سے کام لیا ہے اس کی شرح و تفصیل کی بھی ہمیں ضرورت نہیں۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں چھوا چھوت کی بیماری، بدفالی اور الو سے بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے“، ایک دیہاتی شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اونٹ کو (کھجلی) ہوتی ہے، اور پھر اس سے تمام اونٹوں کو کھجلی ہو جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی تقدیر ہے، اگر ایسا نہیں تو پہلے اونٹ کو کس نے اس میں مبتلا کیا؟“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8580، مصباح الزجاجة: 30)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/24، 222) (صحیح)» (سند میں یحییٰ بن أبی حیہ ابو جناب الکلبی ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے، صرف ''ذلكم القدر'' کا لفظ شاہد نہ ملنے کی بناء پر ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 782، و الضعیفة: 4808)
وضاحت: ۱؎: چھوا چھوت کی بیماری کو عربی میں «عدوى»: کہتے ہیں یعنی ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جائے، اور زمانہ جاہلیت میں عربوں کا عقیدہ تھا کہ کھجلی وغیرہ بعض امراض ایک دوسرے کو لگ جاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اس عقیدہ کو باطل قرار دیا، اور فرمایا کہ یہ تقدیر سے ہے، جیسے پہلے اونٹ کو کسی کی کھجلی نہیں لگی، بلکہ یہ تقدیر الہٰی ہے، اسی طرح اور اونٹوں کی کھجلی بھی ہے۔ «طيرة»: بدفالی اور بدشگونی کو کہتے ہیں جیسے عورتیں کہتی ہیں کہ یہ کپڑا میں نے کس منحوس کے قدم سے لگایا کہ تمام ہی نہیں ہوتا، یا گھر سے نکلے اور بلی سامنے آ گئی، یا کسی نے چھینک دیا تو بیٹھ گئے، یا کوئی چڑیا آگے سے گزر گئی تو اب اگر جائیں گے تو کام نہ ہو گا، اس اعتقاد کو بھی نبی اکرم ﷺ نے باطل فرما دیا، اور اس کو شرک قرار دیا۔ «هامة»: ایک معروف و مشہور جانور ہے جسے الو کہتے ہیں، عرب اس سے بدفالی لیتے تھے، اور کفار و مشرکین کا آج بھی عقیدہ ہے کہ وہ جہاں بولتا ہے وہ گھر ویران اور برباد ہو جاتا ہے، اور بعض عربوں نے سمجھ رکھا تھا کہ میت کی ہڈیاں سڑ کر الو بن جاتی ہیں، یہ تفسیر اکثر علماء نے کی ہے، غرض جاہل لوگ جو ان چیزوں کو خیر و شر کا مصدر و منبع جانتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کے اس اعتقاد کا رد و ابطال کر کے خیر و شر کا مصدر تقدیر الٰہی کو بتایا، اور مسلمان کو یہی عقیدہ رکھنا چاہئے کہ نفع و نقصان اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله ذلكم القدر
عامر بن شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جب کوفہ آئے تو ہم اہل کوفہ کے چند فقہاء کے ساتھ ان کے پاس گئے، اور ہم نے ان سے کہا: آپ ہم سے کوئی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، تو وہ کہنے لگے: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے فرمایا: ”اے عدی بن حاتم! اسلام لے آؤ، سلامت رہو گے“، میں نے پوچھا: اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور ساری تقدیر پر ایمان لاؤ، چاہے اچھی ہو، بری ہو، میٹھی ہو، کڑوی ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9864، مصباح الزجاجة: 31)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/257، 378) (ضعیف جدًا)» (سند میں عبد الاعلیٰ منکر الحدیث بلکہ تقریباً متروک الحدیث راوی ہیں، ملاحظہ ہو: ظلال الجنة: 135)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دل کی مثال اس پر کی طرح ہے جسے ہوائیں میدان میں الٹ پلٹ کرتی رہتی ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9024، مصباح الزجاجة: 32)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/408، 419) (صحیح)» (سند میں راوی یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں، لیکن ان کی متابعت سعید بن ایاس الجریری نے کی ہے، ''مسند احمد: 4/419، والسنة لابن أبی عاصم: 234، نیز مسند أحمد: 4/408''نے عاصم الاحول عن أبی کبشہ عن ابی موسیٰ سے بھی روایت کی ہے، اس لئے یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو خیر و شر دل میں آتا ہے سب تقدیر الہٰی سے ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: انصار کا ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک لونڈی ہے میں اس سے عزل کرتا ہوں ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اس کے مقدر میں ہو گا وہ اس کے پاس آ کر رہے گا“، کچھ دنوں کے بعد وہ آدمی حاضر ہوا اور کہا: لونڈی حاملہ ہو گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2249، ومصباح الزجاجة: 33)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/النکاح 22 (1439)، سنن ابی داود/النکاح 49 (2173)، مسند احمد (3/313، 388) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عضو تناسل کو عورت کی شرمگاہ سے باہر نکال کر منی گرانے کا نام عزل ہے۔ ۲؎: اس سے بھی معلوم ہوا کہ لڑکا اور لڑکی کی پیدائش اللہ کی تقدیر سے ہوتی ہے، کسی پیر و فقیر اور ولی و مرشد کی نذر و نیاز اور منت ماننے سے نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر کو نیکی کے سوا کوئی چیز نہیں بڑھاتی ۱؎، اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز نہیں بدلتی ہے ۲؎، اور آدمی گناہوں کے ارتکاب کے سبب رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2093، ومصباح الزجاجة: 34)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/502، 5/277) (حسن)» (حدیث کے آخری ٹکڑے: «وإن الرجل ليحرم الرزق بخطيئة يعملها» یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة: 154، یہ حدیث آگے (4022) نمبر پر آ رہی ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی نیکی سے عمر میں برکت ہوتی ہے، اور وہ ضائع ہونے سے محفوظ رہتی ہے، یا نیکی کا ثواب مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «والباقيات الصالحات خير عند ربك ثوابا وخير أملا» ”اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ازروئے ثواب اور آئندہ کی اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں“ (سورۃ الکہف: ۴۶) تو گویا عمر بڑھ گئی یا لوح محفوظ میں جو عمر لکھی تھی اس سے زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «يمحو الله ما يشاء ويثبت» یعنی: ”اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے اور جو چاہے ثابت رکھے“ (سورۃ الرعد: ۳۹)، یا ملک الموت نے جو عمر اس کی معلوم کی تھی اس سے بڑھ جاتی ہے، اگرچہ علم الہی میں جو تھی وہی رہتی ہے، اس لئے کہ علم الہی میں موجود چیز کا اس سے پیچھے رہ جانا محال ہے۔ ۲؎: ”تقدیر کو دعا کے سوا ... الخ“ یعنی مصائب اور بلیات جن سے آدمی ڈرتا ہے دعا سے دور ہو جاتی ہیں، اور مجازاً ان بلاؤں کو تقدیر فرمایا، دعا سے جو مصیبت تقدیر میں لکھی ہے آتی ہے مگر سہل ہو جاتی ہے، اور صبر کی توفیق عنایت ہوتی ہے، اس سے وہ آسان ہو جاتی ہے تو گویا وہ مصیب لوٹ گئی۔ قال الشيخ الألباني: حسن دون وإن الرجل
سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ اعمال جو انسان سے صادر ہوتے ہیں آیا اس تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں جس کو لکھ کر قلم خشک ہو چکا ہے، اور جو جاری ہو چکی ہے؟ یا ایسے امر کے مطابق ہوتے ہیں جو آگے ہونے والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ اسی تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں جس کو قلم لکھ کر خشک ہو چکا ہے، اور جو جاری ہو چکی ہے، اور پھر ایک شخص کے لیے اس کی تقدیر کے مطابق وہی کام آسان کر دیا جاتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3819، ومصباح الزجاجة: 35)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/197) (صحیح)» (اس حدیث میں مجاہد اور سراقہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: السنة لابن ابی عاصم: 169)
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی تقدیر کے جھٹلانے والے ہیں، اگر وہ بیمار پڑ جائیں تو تم ان کی عیادت نہ کرو، اگر مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک نہ ہو، اور اگر ان سے ملو تو انہیں سلام نہ کرو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2879، ومصباح الزجاجة: 36) (حسن)» (سند میں بقیہ بن الولید اور ابو الزبیر مدلس راوی ہیں، اور دونوں نے عنعنہ سے روایت کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، اور «وإن لقيتموهم فلا تسلموا عليهم» کا جملہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: السنة لا بن أبی عاصم: 337)
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم ﷺ نے تقدیر کے منکرین کو مجوس سے اس لئے تشبیہ دی کہ وہ دو خالق کے قائل ہیں: ایک خیر کا خالق ہے، اس کا نام یزدان ہے، اور دوسرا شر کا خالق ہے، اس کا نام اہرمن ہے، اور قدریہ خالق سے خلق کے اختیار کو سلب کرتے ہیں اور خلق کو ہر مخلوق کے لئے ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ شر کا خالق نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ پر اصلح (زیادہ بہتر کام) واجب ہے، اور اسی لئے علمائے اہل سنت نے کہا ہے کہ معتزلہ مجوس سے بدتر ہیں اس لئے کہ وہ دو ہی خالق اور الٰہ کے قائل ہیں اور معتزلہ بہت سے خالقوں کے قائل ہیں کہ وہ ہر انسان کو اپنے افعال کا خالق قرار دیتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: حسن دون جملة التسليم
|