سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
The Book of the Sunnah
2. بَابُ : تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ
2. باب: حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔
Chapter: Venerating the Hadith of the Messenger of Allah (saws) and dealing harshly with those who Oppose It
حدیث نمبر: 15
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح بن المهاجر المصري ، انبانا الليث بن سعد ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، ان عبد الله بن الزبير ، حدثه، ان رجلا من الانصار خاصم الزبير عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في شراج الحرة التي يسقون بها النخل، فقال الانصاري: سرح الماء يمر، فابى عليه، فاختصما عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اسق يا زبير، ثم ارسل الماء إلى جارك، فغضب الانصاري، فقال: يا رسول الله ان كان ابن عمتك؟ فتلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: يا زبير" اسق، ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر" قال، فقال: الزبير: والله إني لاحسب هذه الآية نزلت في ذلك، فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في انفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما سورة النساء آية 65.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَهُ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحِ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِ، فَاخْتَصَمَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا زُبَيْرُ" اسْقِ، ثُمَّ احْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ" قَالَ، فَقَال: الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسَبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا سورة النساء آية 65.
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقام حرہ کی اس نالی کے بارے میں جھگڑا کیا جس سے لوگ کھجور کے باغات کی سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: پانی چھوڑ دو تاکہ میرے کھیت میں چلا جائے، زبیر رضی اللہ عنہ نے انکار کیا، ان دونوں نے اپنا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر! تم اپنا کھیت سینچ لو! پھر اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑ دو، انصاری غضبناک ہو کر بولا: اللہ کے رسول! یہ اس وجہ سے کہ وہ آپ کے پھوپھی کے بیٹے ہیں؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر! تم اپنا باغ سینچ لو، پھر پانی روکے رکھو یہاں تک کہ وہ مینڈوں تک پہنچ جائے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: زبیر نے کہا: قسم اللہ کی! میرا خیال ہے کہ یہ آیت اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ہے: «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما» قسم ہے آپ کے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے سارے اختلافات اور جھگڑوں میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ آپ ان میں کر دیں اس سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں، اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں (سورة النساء: 65)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الشرب المساقاة 6 (2359)، 8 (2362)، تفسیر القرآن 12 (3027)، صحیح مسلم/الفضائل 36 (2357)، سنن ابی داود/الأقضیة 31 (3637)، سنن الترمذی/الأحکام 26 (1363)، تفسیر القرآن سورة النساء (3027)، سنن النسائی/آداب القضاة 26 (5418)، (تحفة الأشراف: 5275)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/165، 4/5)، (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے: 2480) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Urwah bin Zubair that 'Abdullah bin Zubair told him that: A man from the Ansar had a dispute with Zubair in the presence of the Messenger of Allah (ﷺ) concerning a stream in the Harrah which they used to irrigate the date-palm trees. The Ansari said: "Let the water flow" but Zubair refused. So they referred that dispute to the Messenger of Allah (ﷺ) who said: "Irrigate (your land), O Zubair., and then let the water flow to your neighbor." The Ansari became angry and said "O Messenger of Allah, is it because he is your cousin?" The face of the Messenger of Allah (ﷺ) changed color (because of anger) and he said: "O Zubair, irrigate (your land) then block the water until it flows back to the walls around the date-palm trees." Zubair said: "By Allah, I think that this verse was revealed concerning this matter. ' But no, by your Lord, they can have no Faith, until they make you (O Muhammad) judge in all disputes between them, and find in themselves no resistance against your decisions, and accept (them) with full submission.' "
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

   جامع الترمذي3027اسق يا زبير وأرسل الماء إلى جارك فغضب الأنصاري وقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتغير وجه رسول الله ثم قال يا زبير اسق واحبس الماء حتى يرجع إلى الجدر لأحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم
   جامع الترمذي1363اسق يا زبير ثم أرسل الماء إلى جارك فغضب الأنصاري فقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتلون وجه رسول الله ثم قال يا زبير اسق ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر
   سنن ابن ماجه15اسق يا زبير ثم أرسل الماء إلى جارك فغضب الأنصاري فقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتلون وجه رسول الله ثم قال يا زبير اسق ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر لأحسب هذه الآية نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 15 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث15  
اردو حاشہ:
(1)
دریا اور ندی وغیرہ کے پانی پر ان لوگوں کا حق فائق ہے جن کی زمین میں پانی پہلے پہنچتا ہے، ان کی ضرورت پوری ہونے کے بعد ان کے ساتھ والوں کا حق ہے۔

(2)
ہمسائے کی ضرورت کا خیال رکھنا مسلمان کا اخلاقی فرض ہے۔

(3)
فیصلہ کرتے وقت بہتر ہے کہ اس انداز سے فیصلہ کیا جائے جس میں دونوں فریقوں کو فائدہ ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالصُّلْحُ خَيْرٌ﴾ (النساء: 128)
 صلح کرنا بہتر ہے۔

(4)
حق دار کو پورا حق دلایا جائے تو یہ بھی درست ہے، اگرچہ اس سے دوسرے فریق کو فائدہ نہ پہنچے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جو فیصلہ کیا تھا، اس میں فریقین کے فائدے کو مدنظر رکھا تھا۔
بعد میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو پوا حق دلوایا۔

(5)
منڈیر سے مراد چھوٹی سی دیوار سے مشابہ حد بندی ہے، یعنی اتنا پانی دو کہ کھیت پورا بھر جائے۔
اس کا اندازہ علمائے کرام نے پاؤں کے ٹخنے تک بیان کیا ہے، یعنی اتنا پانی ہو جائے کہ کھیت میں پاؤں رکھیں تو ٹخنوں تک پانی پہنچے۔
یا اس سے مراد وہ منڈیر ہے جو کجھور کے ہر ایک درخت کے گرد بنائی جاتی ہے، تاکہ تھالے (گڑھے)
میں پانی بھر جائے۔

(6)
ناگوار بات سن کر دل میں ناراضی پیدا ہونا اور چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہونا بشری تقاضا ہے، لیکن غصے کا اثر فیصلے پر نہیں پڑنا چاہیے۔
اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
قاضی کو غصے کی حالت میں دو افراد کے درمیان فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ (صحيح البخاري، الأحكام، باب هل القاضي او يفتي وهو غضبان، حديث: 7158، وصحيح مسلم، الاقضية، باب كراهة قضاء القاضي وهو غضبان، حديث: 1717)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی حفاظت حاصل تھی، اس لیے آپ غصے کی حالت میں بھی ہر بات حق اور درست ہی فرماتے تھے، جبکہ کوئی اور شخص اس سے معصوم نہیں۔

(7)
بدظنی بری چیز ہے، جس کی بنیاد شیطانی وسوسے پر ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے اس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی یہ تصور کر لیا کہ نبی صلی اللہ علہ وسلم نے فیصلہ کرتے ہوئے قرابت کا لحاظ کیا ہے۔

(8)
ایمان کا تقاضا ہے کہ اختلاف کے موقع پر قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے اور پھر اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول بھی کیا جائے۔
تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی عالم یا قاضی معصوم نہیں، اس سے نادانستہ طور پر غلطی کا صدور ہو سکتا ہے۔
اسی لیے سلف صالحین کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوتا تھا تو وہ اپنے فیصلے اور فتوے سے رجوع فرما لیا کرتے تھے۔
اب بھی علمائے حق کا یہی شیوہ ہے اور ہونا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 15   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1363  
´ان دو آدمیوں کا بیان جن میں سے ایک کا کھیت دوسرے سے پانی کے نشیب میں ہو۔`
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زبیر سے حرہ کی نالیوں کے بارے میں جس سے لوگ اپنے کھجور کے درخت سینچتے تھے جھگڑا کیا، انصاری نے زبیر سے کہا: پانی چھوڑ دو تاکہ بہتا رہے، زبیر نے اس کی بات نہیں مانی، تو دونوں نے رسول اللہ کی خدمت میں اپنا قضیہ پیش کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر سے فرمایا: زبیر! (تم اپنے کھیت کو) سیراب کر لو، پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو، (یہ سن کر) انصاری غصہ ہو گیا اور کہا: اللہ کے رسول! (ایسا فیصلہ) اس وج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1363]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان اور اگلے فرمان میں فرق یہ ہے کہ آپﷺ نے زبیر سے اپنے پورے حق سے کم ہی پانی لے کر چھوڑ دینے کا حکم فرمایا،
اور بعد میں غصہ میں زبیر کو پورا پورا حق لینے کے بعد ہی پانی چھوڑ نے کا حکم دیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1363   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3027  
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے (ان کے والد) زبیر بن العوام رضی الله عنہ سے، حرہ ۱؎ کی نالی کے معاملہ میں، جس سے لوگ کھجور کے باغات کی سینچائی کرتے تھے، جھگڑا کیا، انصاری نے زبیر رضی الله عنہ سے کہا کہ پانی کو بہنے دو تاکہ میرے کھیت میں چلا جائے ۲؎، زبیر نے انکار کیا، پھر وہ لوگ اس جھگڑے کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر سے کہا: زبیر! تم (اپنا کھیت) سینچ کر پانی پڑوسی کے کھیت میں جانے دو، (یہ سن کر) انصاری غصہ ہو گیا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ بات اس لیے ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3027]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مدینہ میں ایک معروف جگہ ہے۔

2؎:
زبیر رضی الله عنہ کا کھیت انصاری کے کھیت سے پہلے اونچائی پر پڑتا تھا،
پہلے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے زبیر کو حکم دیا کہ ضرورت کے مطابق پانی لے کر پانی چھوڑ دو،
مگر جب انصاری نے الزام تراشی کر دی تو آپ ﷺنے زبیر رضی الله عنہ سے فرمایا کہ تم خوب خوب اپنا کھیت سیراب کر کے ہی پانی چھوڑو جو تمہارا شرعی اور قانونی حق ہے۔

3؎:
 سو قسم ہے تیرے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے،
جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں (النساء: 65)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3027   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.