حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خمس نکالنے کے بعد ربع (ایک چوتھائی) بطور نفل دیتے تھے (ابتداء جہاد میں) اور جب جہاد سے لوٹ آتے (اور پھر ان میں سے کوئی گروہ کفار سے لڑتا) تو خمس نکالنے کے بعد ایک تہائی بطور نفل دیتے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 3293) (صحیح)»
Narrated Habib ibn Maslamah: The Messenger of Allah ﷺ used to give a quarter of the booty as reward after the fifty had been kept off, and a third after the fifth had been kept off when he returned.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2743
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (4008) انظر الحديث السابق (2748)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2749
فوائد ومسائل: مذکورہ حدیث میں (إذا قفل) اور اگلی روایت میں (في الرحمة)(لوٹتے وقت) کے معنی یہ ہیں کہ جب لشکر ایک بار دشمن پر حملہ کر چکا ہوتا۔ ۔ ۔ بعد ازاں دوبارہ اس پر حملہ کرتا۔ ۔ ۔ اس کا مطلب امام خطابی کے نزدیک یہ ہے۔ کہ جب لشکر کسی علاقے میں جہاد کےلئے جاتا۔ تو اس میں سے کوئی ایک گروہ بڑے لشکر سے الگ ہوکر کسی محدود جنگ کےلئےجاتا تو نبی کریمﷺ اس گروہ میں شامل افراد کو چوتھا حصہ بطور نفل دیتے۔ جب کے بڑے لشکر کے لوگوں کواس کے تین چوتھائی میں حصہ دیتے۔ اور اگر واپسی میں اس طرح کا کوئی چھوٹا گروہ بڑے لشکر سے الگ ہوکر کسی جگہ کےلئے معرکہ آرائی کے لئے جاتا تو واپسی پر جب کہ گھر کا شوق دید بے قراری میں بدل چکا ہوتا۔ علاوہ ازیں دشمن بھی زیادہ چوکس اور مستعد ہوجاتا ہے۔ چونکہ زیادہ پرمشقت اور زیادہ صبرآزما ہوتا۔ تو نبی کریمﷺ اس گروہ کو تیسرا حصہ دیتے۔ واللہ اعلم۔ (خظابی۔ نیل الأوطار)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2749
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1112
´(جہاد کے متعلق احادیث)` سیدنا حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سریہ میں پہلی مرتبہ جانے پر چوتھا حصہ زائد عطا فرمایا اور دوبارہ جانے پر تیسرا حصہ۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ابن جارود، ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1112»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب فيمن قال: الخمس قبل النفل، حديث:2750، وابن حبان (الموارد)، حديث:1672، والحاكم:2 /133، 3 /432 وصححه، ووافقه الذهبي.»
تشریح:
راویٔ حدیث: «حضرت حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ» ابو عبدالرحمن حبیب بن مسلمہ فہری مکی۔ صحابی ہیں۔ حبیب روم کے لقب سے معروف تھے کیونکہ رومیوں کے لیے ان کی بہت سی خدمات ہیں۔ ارمینیہ کے والی بنے اور وہیں ۴۱ یا ۴۲ ہجری میں فوت ہوئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1112
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2748
´مال غنیمت میں سے نفل (انعام) دینے سے پہلے خمس (پانچویں حصہ) نکالا جائے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔` حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مال غنیمت میں سے) خمس (پانچواں حصہ) نکالنے کے بعد ثلث (ایک تہائی) بطور نفل (انعام) دیتے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2748]
فوائد ومسائل: کفار سے مقابلے میں حاصل ہونے والے مال واسباب کو غنیمت کہا جاتا ہے۔ اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے نام کا ہوتا ہے۔ جسے عربی میں خمس کہتےہیں۔ رسول اللہ ﷺ یہ حصہ اپنے صوابدید پر پانچ جگہ خرچ کرسکتےتھے۔ اس مسئلے کا ذکر دسویں پارے کی ابتداء میں ہواہے۔ (وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ)(الانفال۔ 41) یہ جان لو کہ تمھیں جو کچھ بھی غنیمت میں ملے اس سے پانچواں حصہ اللہ کا ہے۔ اور رسول ﷺ کا ہے۔ اور قرابت داروں یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا ہے۔ بقیہ غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پیدل کو ایک حصہ اور سوار کو مذید دو حصے ملتے ہیں۔ اور کافروں سے بغیرلڑے بھڑے حاصل ہونے والے مال کو فے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور اس کا مصرف بھی تقریبا یہی ہے۔ (دیکھئے۔ سورۃ الحشر آیات۔ 6 وما بعد)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2748
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2750
´مال غنیمت میں سے نفل (انعام) دینے سے پہلے خمس (پانچویں حصہ) نکالا جائے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔` مکحول کہتے ہیں میں مصر میں قبیلہ بنو ہذیل کی ایک عورت کا غلام تھا، اس نے مجھے آزاد کر دیا، تو میں مصر سے اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کر لیا، پھر میں حجاز آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ جتنا علم وہاں تھا اپنے خیال کے مطابق حاصل نہیں کر لیا، پھر عراق آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کر لیا، پھر میں شام آیا تو اسے بھی اچھی طرح چھان مارا، ہر شخص سے میں نفل کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2750]
فوائد ومسائل: 1۔ یہ احادیث اسی امر پر محمول ہیں۔ کہ غنیمت میں سے پہلے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حصہ (خمس) نکال لیا گیا تھا۔ تب غنیمت تقیسم ہوئی۔ اور اضافی انعامات بھی دیئے گئے۔
2۔ جناب مکحول شامی معروف اور ثقہ تابعین میں سے ہیں۔ علم دین کی برکت سے اللہ عزوجل نے انہیں غلامی کی پستی سے نکال کر امت مسلمہ کی امامت کا بلند مقام عطا فرمایا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2750
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2851
´مال غنیمت میں سے ہبہ کرنے کا بیان۔` حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں سے خمس (پانچواں حصہ جو اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے) نکال لینے کے بعد مال غنیمت کا ایک تہائی بطور نفل ہبہ اور عطیہ دیتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2851]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) امیر لشکر کو حق حاصل ہے کہ کوئی خاص کارنامہ انجام دینے والے دستے کو غنیمت میں ان کے حصے کے علاوہ خصوصی انعام بھی دے۔ یہ خصوصی انعام خمس میں سے دیا جاتا ہے۔
(2) خمس کے بعد کا مطلب یہ ہے کہ غنیمت میں سے بیت المال کا پانچواں حصہ الگ کرنے کے بعد باقی مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کیا اس کے بعد خمس میں سے کچھ حصہ مزید انعام کے طور پر دیا۔ بعض علماء کے نزدیک خمس نکال کر باقی چار حصوں میں سے کچھ خاص انعام دیا پھر سب مجاہدین میں تقسیم کیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2851
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2853
´مال غنیمت میں سے ہبہ کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مال غنیمت سے ہبہ اور عطیہ کا سلسلہ ختم ہو گیا، اب طاقتور مسلمان کمزور مسلمانوں کو مال لوٹائیں گے ۱؎۔ حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع لڑائی میں ملنے والے کو مال غنیمت کا چوتھائی حصہ بطور ہبہ اور عطیہ دیا، اور لوٹتے وقت تہائی حصہ دیا ۲؎۔ تو عمرو بن شعیب نے سلیمان بن موسیٰ سے کہا کہ میں تمہیں اپنے والد کے واسطہ سے اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما) سے روایت کر رہا ہوں اور تم مجھ سے مکحول کے حوالے سے بیان ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2853]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) سند کے لحاظ سے عمر وبن شعیب کی حدیث کی حدیث زیادہ قوی ہے اگرچہ مکحول کی روایت بھی صحیح ہے اس لیے عمروبن شعیب نے حدیث کی قوت کی طرف توجہ دلائی۔
(2) عمر و بن شعیب کی حدیث کی سند تو قوی ہے لیکن یہ صحابی (عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ) کا فتوی ہے جب کہ مکحول کی حدیث مرفوع ہے، یعنی انھوں نے رسول اللہ ﷺ کا عمل پیش کیا ہے۔ اس کے بعد جب تک یہ حکم منسوخ ہونے کی واضح دلیل نہ ہواس پر عمل کرنا چاہیے۔ ہاں اگر رسول اللہﷺ کا خاصہ ہونے کی واضح دلیل مل جائے تو پھر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قول کو اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن یہاں ایسی کوئی دلیل نہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2853
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:895
895- سیدنا حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک جنگ میں) شریک ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز میں ایک تہائی حصہ مال انفال میں سے دیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:895]
فائدہ: مال غنیمت کو خلیفہ تقسیم کرے گا، اور خلیفہ مال غنیمت کا اندازہ لگا کر مجاہدین میں تقسیم کرے گا، اور اگر زائد دینا چاہے تو سب کو برابر برابر دے گا۔ جب جہاد تھا تو مسلمانوں کو بہت زیادہ مال غنیمت ملتا تھا، کفار پر رعب تھا اور ان کا مال کثیر بھی مسلمانوں کو مال غنیمت کے طور پر ملتا تھا لیکن آج امت مسلمہ نے ”جہاد“ کو کچھ اور سمجھ لیا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 894