كِتَاب الْبُيُوعِ لین دین کے مسائل 14. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ إِلاَّ فِي الْعَرَايَا: باب: تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا حرام ہے مگر عریہ میں درست ہے۔
ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے زہری سے خبر دی، نیز ہمیں ابن نمیر اور زہیر بن حرب نے حدیث بیان کی۔۔ الفاظ انہی دونوں کے ہیں۔۔ دونوں نے کہا: ہمیں سفیان نے حدیث بیان کی کہ ہمیں زہری نے سالم سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے (پکنے کی) صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلہے پھل کی بیع سے اور پھل کو خشک کھجور کے عوض بیچنے سے منع فرمایا
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں زید بن ثابت نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عرایا کی اجازت دی۔ ابن نمیر نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا: (اجازت دی) کہ اسے بیچا (یا خریدا) جائے
ابن شہاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھل (پکنے) کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے مت خریدو اور نہ خشک کھجور کے عوض (درخت پر لگا) پھل خریدو۔" ابن شہاب نے کہا: مجھے سالم بن عبداللہ بن عمرو نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، بالکل اسی کے مانند
ابن شہاب نے سعید بن مسیب سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ اور محاقلہ کی بیع سے منع فرمایا۔ مزابنہ یہ ہے کہ کھجور پر لگے پھل کو خشک کھجور کے عوض فروخت کیا جائے، اور محاقلہ یہ ہے کہ کھیتی کو (کٹنے سے پہلے) گندم کے عوض فروخت کیا جائے اور زمین کو گندم کے عوض کرائے پر دیا جائے۔ (ابن شہاب نے) کہا: مجھے سالم بن عبداللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی کہ آپ نے فرمایا: "صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے پھل نہ خریدو، اور نہ (درخت پر لگے) پھل کو خشک کھجور کے عوض خریدو۔" سالم نے کہا: مجھے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے اس (ممانعت کے عام حکم) کے بعد عَرِیہ کی بیع میں تروتازہ یا خشک کھجور کے عوض بیع کی رخصت دی، اور اس کے سوا کسی بیع میں رخصت نہیں دی
امام مالک نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ والے کو اجازت دی کہ وہ اسے (اس پر موجود پھل کو) مقدار کا اندازہ کرتے ہوئے خشک کھجور کے عوض بیچ لے
سلیمان بن بلال نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے خبر دی کہا: مجھے نافع نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کے بارے میں رخصت دی (عریہ یہ ہے) کہ گھر والے (اپنی طرف سے دیے گئے درخت کے پھل کا) خشک کھجور کے حوالے سے اندازہ لگا کر اسے لے لیں تاکہ وہ تازہ کھجور کھا سکیں
عبدالوہاب نے ہمیں کہا کہ میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا وہ کہہ رہے تھے: مجھے نافع نے اسی سند سے اسی کے مانند خبر دی
ہشیم نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے اسی سند کے ساتھ خبر دی، البتہ انہوں نے کہا: عریہ سے وہ کھجور کا درخت مراد ہے جو لوگوں کو (بطور عطیہ) دیا جاتا ہے۔ وہ (درخت پر لگے پھل کو) اندازے کے بقدر خشک کھجوروں کے عوض فروخت کر دیتے ہیں
لیث نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے خبر دی، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کو (اس سے حاصل ہونے والی) خشک کھجور کی مقدار کے اندازے سے فروخت کرنے کی اجازت دی۔ یحییٰ نے کہا: عریہ یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے گھر والوں کی خوراک کے لیے کھجور کا تازہ پھل (اس سے حاصل ہونے والی) خشک کھجور کے اندازے کے عوض خرید لے۔ (یہ تعریف تازہ پھل لینے والے کے نقطہ نظر سے ہے۔ مفہوم ایک ہی ہے
عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبیداللہ نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا میں رخصت دی کہ اس (کے پھل) کا اندازہ کرتے ہوئے اسے کھجور کی ماپی ہوئی مقدار کے عوض فروخت کر دیا جائے
یحییٰ بن سعید نے عبیداللہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث روایت کی، اور (فروخت کر دیا جائے کی بجائے) "حاصل کر لیا جائے" کے الفاظ بیان کیے
ایوب نے نافع سے اسی سند کے ساتھ روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا کی بیع میں اس کے اندازے کی مقدار (کے حساب سے لین دین) کی اجازت دی
سلیمان بن بلال نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے بُشیر بن یسار سے، انہوں نے اپنے گھرانے سے تعلق رکھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ سے، جن میں سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (درخت پر لگے) پھل کو خشک کھجور کے عوض فروخت کرنے سے منع فرمایا۔ اور آپ نے فرمایا: "یہ سود ہے، یہی (بیع) مزابنہ (کھجور کے درخت پر لگے ہوئے پھل کو خشک کھجور کے عوض فروخت کرنا) ہے۔" ہاں، البتہ آپ نے عریہ کو بیچنے یا خریدنے کی اجازت دی (عَرِیہ یہ ہے) کہ کوئی خاندان ایک دو کھجور کے درخت (جو بطور عطیہ دے گئے) ان سے حاصل ہونے والی خشک کھجور کے اندازے کے مطابق لے لیں تاکہ وہ اس کا تازہ پھل کھائیں (اور جنہیں درخت دیے گئے ہیں، انہیں خشک کھجور دے دیں
لیث نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے خبر دی، انہوں نے بُشیر بن یسار سے اور انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے (بعض) صحابہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کو (اس سے حاصل ہونے ولی) خشک کھجور کی مقدار کے اندازے سے فروخت کرنے کی اجازت دی
محمد بن مثنیٰ، اسحاق بن ابراہیم اور ابن ابی عمر سب نے (عبدالوہاب) ثقفی سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا وہ کہہ رہے تھے: مجھے بشیر بن یسار نے اپنے خاندان سے تعلق رکھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ آگے یحییٰ سے سلیمان بن بلال کی حدیث (3887) کے مانند حدیث ذکر کی۔ لیکن اسحاق اور ابن مثنیٰ نے لفظ ربا کی بجائے لفظ زبن (مزابنہ) استعمال کیا ہے، تاہم ابن ابی عمر نے رِبا ہی کہا
سفیان بن عیینہ نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے بشیر بن یسار سے، انہوں نے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔۔۔ انہی (سلیمان، لیث اور ثقفی) کی حدیث کے ہم معنی
ولید بن کثیر نے کہا: مجھے بنو حارثہ کے مولیٰ بشیر بن یسار نے حدیث بیان کی کہ رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ دونوں نے اسے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ، یعنی تازہ کھجور کی خشک کھجور کے عوض بیع سے منع فرمایا، سوائے عرایا والوں کے کیونکہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی
یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: میں نے امام مالک سے پوچھا: کیا آپ کو داود بن حصین نے ابن ابی احمد کے آزاد کردہ غلام ابوسفیان (وہب) سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا کو پانچ وسق سے کم یا پانچ وسق تک اندازے سے بیچنے کی رخصت دی ہے؟۔۔ (امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:) شک داود کو ہے کہ انہوں (ابوسفیان) نے پانچ وسق کہا یا پانچ وسق سے کم کہا۔۔ تو انہوں (امام مالک) نے جواب دیا: ہاں
امام مالک نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا اور مزابنہ سے مراد (کھجور کے تازہ) پھل کو خشک کھجور کی ماپی (یا تولی ہوئی) مقدار کے عوض اور انگور کو منقیٰ کی ماپی (یا تولی ہوئی) مقدار کے عوض فروخت کرنا ہے
محمد بن بشیر نے کہا: ہمیں عبیداللہ نے نافع سے حدیث بیان کی کہ حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ عنہ) نے انہیں خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا، اور مزابنہ یہ ہے کہ کھجور کے تازہ پھل کو خشک کھجور کی ماپی ہوئی مقدار کے عوض بیچا جائے اور انگور کو منقیٰ کی ماپی ہوئی مقدار کے عوض بیچا جائے اور (خوشیوں میں) گندم کی کھیتی کو ماپی ہوئی مقدار کے عوض بیچا جائے
ابن ابی زائدہ نے عبیداللہ سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی
ابو اسامہ نے ہم سے بیان کیا، کہا: ہمیں عبیداللہ نے نافع سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا۔ اور مزابنہ یہ ہے کہ کھجور کے (تازہ) پھل کو خشک کھجور کے ماپ کی مقررہ مقدار کے عوض اور انگور کو منقیٰ کے ماپ کی مقررہ مقدار کے عوض فروخت کیا جائے اور کسی بھی پھل کو اندازے کی بنیاد پر (اسی طرح) فروخت کرنے سے منع فرمایا
اسماعیل بن ابراہیم نے ہمیں ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا اور مزابنہ یہ ہے کہ کھجور پر جو پھل لگا ہوا ہے اسے ماپ کی مقررہ مقدار کے ساتھ خشک کھجور کے عوض بیچا جائے کہ اگر بڑھ گیا تو میرا اور اگر کم ہو گیا تو اس کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہو گی
حماد نے ایوب سے اسی سند کے ساتھ اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رُمح نے لیث سے حدیث بیان کی، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا (مزابنہ یہ ہے) کہ کوئی آدمی اپنے باغ کا پھل اگر کھجور ہو تو خشک کھجور کے مقررہ ماپ کے عوض فروخت کرے اور اگر انگور ہو تو منقیٰ کے مقررہ ماپ کے عوض فروخت کرے اور اگر کھیتی ہو تو غلے کے مقررہ ماپ کے عوض اسے فروخت کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب (سودوں) سے منع فرمایا۔ قتیبہ کی روایت میں (وان کان زرعا "اور اگر کھیتی ہو" کے بجائے) "یا کھیتی ہو" کے الفاظ ہیں۔
یونس، ضحاک اور موسیٰ بن عقبہ سب نے نافع سے اسی سند کے ساتھ ان (عبیداللہ، ایوب اور لیث) کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی
|