ہشیم نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے اسی سند کے ساتھ خبر دی، البتہ انہوں نے کہا: عریہ سے وہ کھجور کا درخت مراد ہے جو لوگوں کو (بطور عطیہ) دیا جاتا ہے۔ وہ (درخت پر لگے پھل کو) اندازے کے بقدر خشک کھجوروں کے عوض فروخت کر دیتے ہیں
یحییٰ بن سعید اسی سند سے بیان کرتے ہیں، ہاں اس میں یہ ہے کہ عریہ وہ کھجور ہے، جو کسی قوم کو دی جاتی ہے تو وہ اسے اندازہ کر کے خشک کھجوروں کے عوض بیچ دیتے ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3882
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے صراحتا فروخت کرنے کی نسبت، ان لوگوں کی طرف کی گئی ہے، جنہیں وہ کھجور ہبہ کی گئی ہے۔ اس کے باوجود اس کو ھبہ کی تبدیلی کی دلیل قرار دینا، معلوم نہیں کس منطق کی رو سے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور اس میں خریداری کی بھی تعیین نہیں ہے کہ وہ خود مالک ہے یا کوئی اور ہے، مالک تو صرف اسی صورت میں خریدار ہو سکتا ہے جب وہ گھر والوں سمیت باغ میں رہائش پذیر ہو، اور دوسروں کی آمد و رفت تکلیف کا باعث ہو، اگر وہ باغ میں رہائش نہیں رکھتا یا آمد و رفت سے تکلیف نہیں ہوتی، تو پھر اس کو خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔