كِتَاب الطَّلَاقِ طلاق کے احکام و مسائل 4. باب بَيَانِ أَنَّ تَخْيِيرَ امْرَأَتِهِ لاَ يَكُونُ طَلاَقًا إِلاَّ بِالنِّيَّةِ: باب: تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو۔
ابن شہاب سے روایت ہے، کہا: مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دیں تو آپ نے (اس کی) ابتدا مجھ سے کی، اور فرمایا: " میں تم سے ایک بات کرنے لگا ہوں۔ تمہارے لیے اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کرنے تک (جواب دینے میں) عجلت سے کام نہ لو۔" انہوں نے کہا: آپ کو بخوبی علم تھا کہ میرے والدین مجھے کبھی آپ سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں (دنیا کا) ساز و سامان دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔" (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے عرض کی: ان میں سے کس بات میں اپنے والدین سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ، اس کا رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہوں۔ کہا: پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج نے وہی کیا جو میں نے کیا تھا
عباد بن عباد نے ہمیں عاصم سے حدیث بیان کی، انہوں نے معاذ عدویہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب ہم میں سے کسی بیوی کی باری کا دن ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کسی اور بیوی کے ہاں جانے کے لیے) ہم سے اجازت لیتے تھے، حالانکہ یہ آیت نازل ہو چکی تھی: "آپ ان میں سے جسے چاہیں (خود سے) الگ رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں۔" تو معاذہ نے ان سے پوچھا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے اجازت لیتے تو آپ ان سے کیا کہتی تھیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں کہتی تھی: اگر یہ (اختیار) میرے سپرد ہے تو میں اپنے آپ پر کسی کو ترجیح نہیں دیتی
عبداللہ) بن مبارک نے کہا: ہمیں عاصم نے اسی سند سے اسی کے ہم معنی خبر دی
عبثر نے ہمیں اسماعیل بن ابی خالد سے خبر دی، انہوں نے شعبی سے اور انہوں نے مسروق سے روایت کی، کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: (جب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (علیحدہ ہو جانے کا) اختیار دیا تھا، تو ہم نے اسے طلاق شمار نہیں کیا
علی بن مسہر نے اسی سند کے ساتھ مسروق سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب میری اہلیہ نے مجھے پسند کر لیا تو اس کے بعد مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں اسے ایک بار، سو بار یا ایک ہزار بااختیار دوں۔ بلاشبہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا: بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تھا تو کیا وہ طلاق تھی! (نہیں تھی
شعبہ نے ہمیں عاصم سے حدیث بیان کی، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے مسروق سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو (ساتھ رہنے یا علیحدہ ہو جانے کا) اختیار دیا تھا اور وہ طلاق نہیں تھی
سفیان نے عاصم احول اور اسماعیل بن ابی خالد سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے مسروق سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تو ہم نے آپ کو اختیار کیا (چن لیا) اور آپ نے اسے طلاق شمار نہیں کیا
ابومعاویہ نے اعمش سے، انہوں نے مسلم سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تو ہم نے آپ کو اختیار کر لیا اور آپ نے اسے ہم پر (طلاق وغیرہ) کچھ شمار نہیں کیا
اسماعیل بن زکریا نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اعمش نے ابراہیم سے حدیث بیان کی، انہوں نے اسود سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، (نیز اسماعیل نے) اعمش سے، انہوں نے مسلم (ابن صبیح) سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی کے مانند روایت کی
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگ رہے تھے۔ انہوں نے لوگوں کو آپ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے پایا۔ ان میں سے کسی کو اجازت نہیں ملی تھی۔ کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اجازت ملی تو وہ اندر داخل ہو گئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے اجازت مانگی، انہیں بھی اجازت مل گئی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین اور خاموش بیٹھے ہوئے پایا، آپ کی بیویاں آپ کے ارد گرد تھیں۔ کہا: تو انہوں (ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں ضرور کوئی ایسی بات کروں گا جس سے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساؤں گا۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کاش کہ آپ بنت خارجہ کو دیکھتے جب اس نے مجھ سے نفقہ کا سوال کیا تو میں اس کی جانب بڑھا اور اس کی گردن دبا دی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ اور فرمایا: "یہ بھی میرے اردگرد بیٹھی ہیں، جیسے تم دیکھ رہے ہو، اور مجھ سے نفقہ مانگ رہی ہیں۔" ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب اٹھے اور ان کی گردن پر ضرب لگانا چاہتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی جانب بڑھے اور وہ ان کی گردن پر مارنا چاہتے تھے، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اس سے روک دیا۔ مسند احمد: 3/328) اور دونوں کہہ رہے تھے: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چیز کا سوال کرتی ہو جو ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ کہنے لگیں: اللہ کی قسم! آج کے بعد ہم کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیز کا مطالبہ نہیں کریں گی جو آپ کے پاس نہ ہو گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ یا انتیس دن تک کے لیے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ پھر آپ پر یہ آیت نازل ہوئی: "اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دو۔" حتی کہ یہاں پہنچ گئے: "تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بڑا اجر ہے۔" (جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: آپ نے ابتدا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کی اور فرمایا: "اے عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک معاملہ پیش کر رہا ہوں اور پسند کرتا ہوں کہ تم، اپنے والدین سے مشورہ کر لینے تک اس میں جلدی نہ کرنا۔" انہوں نے کہا: کیا میں آپ کے بارے میں، اللہ کے رسول! اپنے والدین سے مشورہ کروں گی! بلکہ میں تو اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چنتی ہوں، اور آپ سے یہ درخواست کرتی ہو کہ جو میں نے کہا ہے، آپ اپنی بیویوں میں سے کسی کو اس کی خبر نہ دیں۔ آپ نے فرمایا: "مجھ سے جو بھی پوچھے گی میں اسے بتا دوں گا، اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا اور لوگوں کے لیے مشکلات ڈھونڈنے والا بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ اللہ نے مجھے تعلیم دینے والا اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے
|