كِتَاب الطَّلَاقِ طلاق کے احکام و مسائل The Book of Divorce 3. باب وُجُوبِ الْكَفَّارَةِ عَلَى مَنْ حَرَّمَ امْرَأَتَهُ وَلَمْ يَنْوِ الطَّلاَقَ: باب: کفارہ کا واجب ہونا اس پر جس نے اپنی عورت سے کہا: کہ تو مجھ پر حرام ہے اور نیت طلاق کی نہ تھی۔ Chapter: Expiation must be offered by one who declares his wife to be unlawful for him but does not intend divorce thereby ہشام، یعنی دستوائی (کپڑے والے) سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے یحییٰ بن کثیر نے یعلیٰ بن حکیم سے حدیث بیان کرتے ہوئے لکھ بھیجا، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، وہ (بیوی کو اپنے اوپر) حرام کرنے کے بارے میں کہا کرتے تھے: یہ قسم ہے جس کا وہ کفارہ دے گا۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: "یقینا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ بیوی کو کہنا تو مجھ پر حرام ہے، قسم ہے، اس پر قسم کا کفارہ ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معاویہ بن سلام نے ہمیں یحییٰ بن ابی کثیر سے حدیث بیان کی کہ یعلیٰ بن حکیم نے انہیں خبر دی، انہیں سعید بن جبیر نے خبر دی، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا: انہوں نے کہا: جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لے تو یہ قسم ہے جس کا وہ کفارہ دے گا، اور کہا: "بلاشبہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں، اگر انسان اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام قرار دیتا ہے، تو یہ قسم ہے اس کو کفارہ قسم ادا کرنا ہو گا اور کہا، تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا حجاج بن محمد ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني عطاء ، انه سمع عبيد بن عمير ، يخبر انه: سمع عائشة ، تخبر ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يمكث، عند زينب بنت جحش فيشرب، عندها عسلا، قالت: فتواطات انا وحفصة ان ايتنا ما دخل عليها النبي صلى الله عليه وسلم، فلتقل: إني اجد منك ريح مغافير اكلت مغافير، فدخل على إحداهما، فقالت ذلك له، فقال: " بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش، ولن اعود له "، فنزل: لم تحرم ما احل الله لك إلى قوله: إن تتوبا سورة التحريم آية 1 - 4، لعائشة، وحفصة، وإذ اسر النبي إلى بعض ازواجه حديثا سورة التحريم آية 3، لقوله: بل شربت عسلا ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ ، يُخْبِرُ أَنَّهُ: سَمِعَ عَائِشَةَ ، تُخْبِرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ، عَنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَيَشْرَبُ، عَنْدَهَا عَسَلًا، قَالَت: فَتَوَاطَأتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَنَّ أَيَّتَنَا مَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا، فقَالَت ذَلِكَ لَهُ، فقَالَ: " بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عَنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَلَنْ أَعُودَ لَهُ "، فَنَزَلَ: لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ إِلَى قَوْلِهِ: إِنْ تَتُوبَا سورة التحريم آية 1 - 4، لِعَائِشَةَ، وَحَفْصَةَ، وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا سورة التحريم آية 3، لِقَوْلِهِ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا ". عبید بن عمیر نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ بتا رہی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرتے اور ان کے پاس سے شہد نوش فرماتے تھے: کہا: میں اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے اتفاق کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم (پہلے) تشریف لائیں، وہ کہے: مجھے آپ سے مغافیر کی بو محسوس ہو رہی ہے۔ کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟آپ ان میں سے ایک کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کے سامنے یہی بات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلکہ میں نے زینب بنت حجش کے ہاں سے شہد پیا ہے۔ اور آئندہ ہرگز نہیں پیوں گا۔" اس پر (قرآن) نازل ہوا: "آپ کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے" اس فرمان تک: "اگر تم دونوں توبہ کرو۔"۔۔ یہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے کہا گیا۔۔ "اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی سے راز کی بات کہی" اس سے مراد (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان) ہے: "بلکہ میں نے شہد پیا ہے <انڈر لائن > حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ٹھہرتے اور وہاں شہد پیتے۔ تو میں نے اور حفصہ نے ایکا (اتفاق) کیا کہ ہم میں سے جس کے ہاں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں وہ کہے۔ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مغافیر کی بو محسوس ہوتی ہے، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ایک کے ہاں تشریف لائے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ میں نے زینب بنت جحش کے ہاں شہد پیا ہے اور آئندہ نہیں پیوں گا۔“ اس پر یہ آیت اتری: (آپ وہ چیز کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال قرار دی ہے۔) ﴿اِنْ تَتُوْبَا﴾
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء ، وهارون بن عبد الله ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب الحلواء والعسل، فكان إذا صلى العصر دار على نسائه فيدنو منهن، فدخل على حفصة، فاحتبس عندها اكثر مما كان يحتبس، فسالت عن ذلك: فقيل لي: اهدت لها امراة من قومها عكة من عسل، فسقت رسول الله صلى الله عليه وسلم منه شربة، فقلت: اما والله لنحتالن له فذكرت ذلك لسودة، وقلت: إذا دخل عليك، فإنه سيدنو منك، فقولي له: يا رسول الله، اكلت مغافير، فإنه سيقول لك: لا، فقولي له: ما هذه الريح وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يشتد عليه ان يوجد منه الريح، فإنه سيقول لك: سقتني حفصة شربة عسل، فقولي له: جرست نحله العرفط، وساقول ذلك له، وقوليه انت يا صفية، فلما دخل على سودة، قالت: تقول سودة: والذي لا إله إلا هو لقد كدت ان ابادئه بالذي قلت لي، وإنه لعلى الباب، فرقا منك، فلما دنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: يا رسول الله، اكلت مغافير؟ قال: " لا "، قالت: فما هذه الريح؟ قال: " سقتني حفصة شربة عسل "، قالت: جرست نحله العرفط، فلما دخل علي قلت له مثل ذلك، ثم دخل على صفية، فقالت بمثل ذلك، فلما دخل على حفصة، قالت: يا رسول الله، الا اسقيك منه، قال: لا حاجة لي به، قالت: تقول سودة: سبحان الله، والله لقد حرمناه، قالت: قلت لها: اسكتي، قال ابو إسحاق إبراهيم: حدثنا الحسن بن بشر بن القاسم، حدثنا ابو اسامة، بهذا سواء،حدثنا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حدثنا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ، فَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ دَارَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَاحْتَبَسَ عَنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ: فَقِيلَ لِي: أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةً مِنْ عَسَلٍ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ شَرْبَةً، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ، وَقُلْتُ: إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ، فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ، فَقُولِي لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: لَا، فَقُولِي لَهُ: مَا هَذِهِ الرِّيح وكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ يُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقُولِي لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، وَسَأَقُولُ ذَلِكِ لَهُ، وَقُولِيهِ أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ، قَالَت: تَقُولُ سَوْدَةُ: وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِئَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي، وَإِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ، فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ قَالَ: " لَا "، قَالَت: فَمَا هَذِهِ الرِّيح؟ قَالَ: " سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ "، قَالَت: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيَّ قُلْتُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ، فقَالَت بِمِثْلِ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، قَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَسْقِيكَ مِنْهُ، قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي بِهِ، قَالَت: تَقُولُ سَوْدَةُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ، قَالَت: قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِي، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ: حدثنا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْقَاسِمِ، حدثنا أَبُو أُسَامَةَ، بِهَذَا سَوَاءً، ابواسامہ نے ہمیں ہشام سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد کو پسند فرماتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے تو اپنی تمام ازواج کے ہاں چکر لگاتے اور ان کے قریب ہوتے، (ایسا ہوا کہ) آپ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو ان کے ہاں آپ اس سے زیادہ (دیر کے لیے) رکے جتنا آپ (کسی بیوی کے پاس) رکا کرتے تھے۔ ان (حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا) کو ان کے خاندان کی کسی عورت نے شہد کا (بھرا ہوا) ایک برتن ہدیہ کیا تھا تو انہوں نے اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پلایا۔ میں نے (دل میں) کہا: اللہ کی قسم! ہم آپ (کو زیادہ دیر قیام سے روکنے) کے لیے ضرور کوئی حیلہ کریں گی، چنانچہ میں نے اس بات کا ذکر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا، اور کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ہاں تشریف لائیں گے تو تمہارے قریب ہوں گے، (اس وقت) تم ان سے کہنا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟ وہ تمہیں جواب دیں گے، نہیں! تو تم ان سے کہنا: یہ بو کیسی ہے؟۔۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات انتیائی گراں گزرتی تھی کہ آپ سے بو محسوس کی جائے۔۔ اس پر وہ تمہیں جواب دیں گے: مجھے حفصہ نے شہد پلایا تھا، تو تم ان سے کہنا (پھر) اس کی مکھی نے عرفط (بوٹی) کا رس چوسا ہو گا۔میں بھی آپ سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہنا! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! آپ ابھی دروازے پر ہی تھے کہ میں تمہاری ملامت کے ر سے آپ کو بلند آواز سے وہبات کہنے ہی لگی تھی جو تم نے مجھ سے کہی تھی، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریب ہوئے تو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں۔" انہوں نے کہا: تو یہ بو کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے حفصہ نے شہد پلایا تھا۔" انہوں نے کہا: پھر اس کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہو گا۔ اس کے بعد جب آپ میرے ہاں تشریف لائے، تو میں نے بھی آپ سے یہی بات کہی، پھر آپ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے، تو انہوں نے بھی یہی بات کہی، اس کے بعد آپ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں (دوبارہ) تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی: کیا آپ کو شہد پیش نہ کروں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، مجھے اس کی ضرورت نہیں۔" (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: سودہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں، سبحان اللہ! اللہ کی قسم! ہم نے آپ کو اس سے محروم کر دیا ہے۔ تو میں نے ان سے کہا: خاموش رہیں۔ ابواسحاق ابراہیم نے کہا: ہمیں حسن بن بشر بن قاسم نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں ابواسامہ نے بالکل اسی طرح حدیث بیان کی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیرینی اور شہد پسند تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز سے فارغ ہوتے تو تمام بیویوں کے ہاں چکر لگاتے اور ان کے قریب بیٹھتے۔ ایک دفعہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گئے اور عام معمول سے زیادہ ان کے پاس رک گئے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو مجھے بتایا گیا۔ ان کی قوم کی کسی عورت نے انہیں شہد کا ایک کپا ہدیہ کے طور پر دیا ہے۔ تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ پلایا ہے تو میں نے دل میں کہا، ہم اللہ کی قسم! اس کے لیے کوئی تدبیر اختیار کریں گے۔ میں نے اس کا تذکرہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا اور انہیں کہا، جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئیں گے تو آپ کے قریب بیٹھیں گے، تو ان سے کہنا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فورا فرمائیں گے نہیں، تو ان سے کہنا، یہ بو کیسی ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات انتہائی ناگوار تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بو آئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً یہ فرمائیں گے، حفصہ نے مجھے کچھ شہد پلایا ہے۔ تو ان سے کہنا، اس کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہے، اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہوں گی۔ اور تو بھی اے صفیہ، یہی کہنا۔ تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں آئے، تو سودہ بیان کرتی ہیں، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، قریب تھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سے وہ بات کہوں جو آپ نے (عائشہ نے) مجھے کہی تھی۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دروازہ پر تھے، تیرے ڈر کی خاطر، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریب پہنچے سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں۔ انہوں نے کہا، یہ بو کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حفصہ نے تھوڑا سا شہد پلایا ہے) انہوں نے کہا، شہد کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، تو میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کہا، پھر صفیہ کے ہاں گئے۔ انہوں نے بھی ایسے ہی کہا، تو جب حفصہ کے ہاں پہنچے، انہوں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کو اس سے (شہد سے) نہ پلاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔“ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں، سودہ نے کہا سبحان اللہ! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے محروم کر دیا ہے، تو میں نے اسے کہا، خاموش رہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
علی بن مسہر نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی امام مسلم کی صحیح مسلم کے راوی ابو اسحاق ابراہیم مذکورہ بالا روایت امام صاحب کے ہم پلہ ہو کر ابو اسامہ سے ایک واسطہ سے بیان کرتے ہیں، اور امام مسلم اپنے دوسرے استاد سے بھی ہشام بن عروہ کی ہی سند سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|