كِتَاب الطَّلَاقِ طلاق کے احکام و مسائل The Book of Divorce 8. باب انْقِضَاءِ عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا وَغَيْرِهَا بِوَضْعِ الْحَمْلِ: باب: وضع حمل سے عدت کا تمام ہونا۔ Chapter: The 'Iddah of a woman whose husband had died, and the like, ends when she gives birth. وحدثني ابو الطاهر ، وحرملة بن يحيى ، وتقاربا في اللفظ، قال حرملة: حدثنا، وقال ابو الطاهر: اخبرنا ابن وهب ، حدثني يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، حدثني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود : ان اباه كتب إلى عمر بن عبد الله بن الارقم الزهري يامره ان يدخل على سبيعة بنت الحارث الاسلمية، فيسالها عن حديثها، وعما قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم حين استفتته؟ فكتب عمر بن عبد الله إلى عبد الله بن عتبة، يخبره، ان سبيعة ، اخبرته: انها كانت تحت سعد بن خولة وهو في بني عامر بن لؤي، وكان ممن شهد بدرا، فتوفي عنها في حجة الوداع وهي حامل، فلم تنشب ان وضعت حملها بعد وفاته، فلما تعلت من نفاسها، تجملت للخطاب، فدخل عليها ابو السنابل بن بعكك رجل من بني عبد الدار، فقال لها: ما لي اراك متجملة لعلك ترجين النكاح، إنك والله ما انت بناكح حتى تمر عليك اربعة اشهر وعشر، قالت سبيعة: فلما قال لي ذلك جمعت علي ثيابي حين امسيت، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالته عن ذلك، " فافتاني باني قد حللت حين وضعت حملي، وامرني بالتزوج إن بدا لي "، قال ابن شهاب: فلا ارى باسا ان تتزوج حين وضعت، وإن كانت في دمها غير ان لا يقربها زوجها حتى تطهر.وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَ حَرْمَلَةُ: حدثنا، وقَالَ أَبُو الطَّاهِرِ: أَخْبَرَنا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ : أَنَّ أَبَاهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ يَأْمُرُهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةِ، فَيَسْأَلَهَا عَنْ حَدِيثِهَا، وَعَمَّا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ اسْتَفْتَتْهُ؟ فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، يُخْبِرُهُ، أَنَّ سُبَيْعَةَ ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ وَهُوَ فِي بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا، تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، فقَالَ لَهَا: مَا لِي أَرَاكِ مُتَجَمِّلَةً لَعَلَّكِ تَرْجِينَ النِّكَاحَ، إِنَّكِ وَاللَّهِ مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ حَتَّى تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ، قَالَت سُبَيْعَةُ: فَلَمَّا قَالَ لِي ذَلِكَ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، " فَأَفْتَانِي بِأَنِّي قَدْ حَلَلْتُ حِينَ وَضَعْتُ حَمْلِي، وَأَمَرَنِي بِالتَّزَوُّجِ إِنْ بَدَا لِي "، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَلَا أَرَى بَأْسًا أَنْ تَتَزَوَّجَ حِينَ وَضَعَتْ، وَإِنْ كَانَتْ فِي دَمِهَا غَيْرَ أَنْ لَا يَقْرَبُهَا زَوْجُهَا حَتَّى تَطْهُرَ. ابن شہاب سے روایت ہے، (انہوں نے کہا:) مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے حدیث بیان کی کہ ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو حکم دیتے ہوئے لکھا کہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائیں، اور ان سے ان کے واقعے کے بارے میں اور ان کے فتویٰ پوچھنے پر جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا اس کے بارے میں پوچھیں۔ چنانچہ عمر بن عبداللہ نے عبداللہ بن عتبہ کو خبر دیتے ہوئے لکھا کہ سبیعہ نے انہیں بتایا ہے کہ وہ سعد بن خولہ کی بیوی تھیں، وہ بنی عامر بن لؤی میں سے تھے اور وہ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے تھے۔ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر، فوت ہو گئے تھے جبکہ وہ حاملہ تھیں۔ ان کی وفات کے بعد زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ انہوں نے بچے کو جنم دیا۔ جب وی اپنے نفاس سے پاک ہوئیں تو انہوں نے نکاح کا پیغام دینے والوں کے لیے (کہ انہیں ان کی عدت سے فراغت کا پتہ چل جائے کچھ) بناؤ سنگھار کیا۔ بنو عبدالدار کا ایک آدمی۔۔ ابوالسنابل بن بعکک۔۔ ان کے ہاں آیا تو ان سے کہا: کیا بات ہے میں آپ کو بنی سنوری دیکھ رہا ہوں؟ شاید آپ کو نکاح کی امید ہے؟ اللہ کی قسم! آپ نکاح نہیں کر سکتیں حتی کہ آپ پر چار مہینے دس دن گزر جائیں۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب اس نے مجھے یہ بات کہی تو شام کے وقت میں نے اپنے کپڑے سمیٹے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فتویٰ دیا کہ میں اسی وقت حلال ہو چکی ہوں جب میں نے بچہ جنا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے، اگر میں مناسب سمجھوں تو مجھے شادی کرنے کا حکم دیا۔ ابن شہاب نے کہا: میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ وضع حمل کے ساتھ ہی، چاہے وہ اپنے (نفاس کے) خون میں ہو، عورت نکاح کر لے، البتہ اس کا شوہر اس کے پاک ہونے تک اس کے قریب نہ جائے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ کے پاس جا کر، ان سے پوچھو کہ تمہارا واقعہ کیا ہے اور جب تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کیا جواب دیا تھا۔ تو عمر بن عبداللہ نے عبداللہ بن عتبہ کو اطلاع دیتے ہوئے لکھا کہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اسے بتایا کہ وہ سعد بن خولہ جو بنو عامر بن لؤی کے فرد تھے، کی بیوی تھی۔ اور وہ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے تھے۔ تو وہ حجۃ الوداع کے موقع پر، جبکہ وہ حاملہ تھی، وفات پا گئے۔ ان کی وفات کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی اس نے بچا جنا، اور جب وہ نفاس سے نکلی، تو اس نے منگنی کا پیغام دینے والوں کی خاطر بناؤ سنگھار کیا، تو اس کے پاس بنو عبدالدار کے فرد ابو سنابل بن بعکک رضی اللہ تعالی عنہ آئے، اور اس سے پوچھا، کیا بات ہے میں تمہیں بنی سنوری دیکھ رہا ہوں؟ شاید تم نکاح کرنا چاہتی ہو، یقینا اللہ کی قسم! تو اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتی جب تک تم پر چار ماہ اور دس دن نہ گزر جائیں، سبیعہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں، جب اس نے مجھے یہ بات کہی تو میں نے شام کو اپنے کپڑے اوڑھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا، کہ جب میں نے وضع حمل کیا تھا، اس وقت سے شادی کے قابل ہو چکی ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا، کہ اگر میں چاہوں تو شادی کر سکتی ہوں۔ ابن شہاب کہتے ہیں، میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وضع حمل کے بعد عورت شادی کر لے۔ اگرچہ ابھی ولادت کا خون جاری ہو۔ ہاں اس کا خاوند جب تک وہ خون سے پاک نہ ہو جائے، اس سے تعلقات قائم نہ کرے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن المثنى العنزي ، حدثنا عبد الوهاب ، قال: سمعت يحيى بن سعيد ، اخبرني سليمان بن يسار : ان ابا سلمة بن عبد الرحمن، وابن عباس اجتمعا عند ابي هريرة، وهما يذكران المراة تنفس بعد وفاة زوجها بليال، فقال ابن عباس: عدتها آخر الاجلين، وقال ابو سلمة: قد حلت، فجعلا يتنازعان ذلك، قال: فقال ابو هريرة: انا مع ابن اخي، يعني ابا سلمة، فبعثوا كريبا مولى ابن عباس إلى ام سلمة، يسالها: عن ذلك، فجاءهم فاخبرهم: ان ام سلمة ، قالت: إن سبيعة الاسلمية نفست بعد وفاة زوجها بليال، وإنها ذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم: " فامرها ان تتزوج "،حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنْزِيُّ ، حدثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ : أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَابْنَ عَبَّاسٍ اجْتَمَعَا عَنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهُمَا يَذْكُرَانِ الْمَرْأَةَ تُنْفَسُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، فقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عِدَّتُهَا آخِرُ الْأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: قَدْ حَلَّتْ، فَجَعَلَا يَتَنَازَعَانِ ذَلِكَ، قَالَ: فقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي، يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ، فَبَعَثُوا كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ، يَسْأَلُهَا: عَنْ ذَلِكَ، فَجَاءَهُمْ فَأَخْبَرَهُمْ: أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ ، قَالَت: إِنَّ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةَ نُفِسَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، وَإِنَّهَا ذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ "، عبدالوہاب نے کہا: میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا، (انہوں نے کہا:) مجھے سلیمان بن یسار نے خبر دی کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور ابن عباس رضی اللہ عنہم دونوں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہاں اکٹھے ہوئے اور وہ دونوں اس عورت کا ذکر کرنے لگے جس کا اپنے شوہر کی وفات سے چند راتوں کے بعد نفاس شروع ہو جائے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کی عدت دو وقتوں میں سے آخر والا ہے۔ ابوسلمہ نے کہا: وہ حلال ہو چکی ہے۔ وہ دونوں اس معاملے میں بحث کرنے لگے، تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے۔۔ یعنی ابوسلمہ۔۔ کے ساتھ ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے اس مسئلے کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام کریب کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف بھیجا۔ وہ (واپس) ان کے پاس آیا تو انہیں بتایا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہے: سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی وفات سے چند راتوں کے بعد بچہ جنا تھا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے انہیں نکاح کرنے کا حکم دیا تھا سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں کہا ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما، دونوں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس اکٹھے بیٹھے ہوئے، اس عورت کے بارے میں باہمی گفتگو کر رہے تھے، جو اپنے خاوند کی وفات کے چند راتیں بعد بچہ جنتی ہے، تو ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا، عدت وفات اور عدت حمل میں سے جو بعد میں آئے گی، وہی اس کی عدت ہو گی، اور ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، وہ (وضع حمل سے) عدت سے گزر گئی ہے۔ تو وہ اس میں اختلاف کرنے لگے تو ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں اپنے بھتیجے یعنی ابو سلمہ کا ہم نوا ہوں، تو انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے مولیٰ کریب کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا، تو اس نے آ کر انہیں بتایا، ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب دیا ہے کہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے خاوند کی وفات کے چند راتوں بعد بچہ جنا اور اس نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شادی کرنے کی اجازت دے دی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
لیث اور یزید بن ہارون دونوں نے اسی سند کے ساتھ یحییٰ بن سعید سے روایت کی، البتہ لیث نے اپنی حدیث میں کہا: انہوں نے (کسی کو) ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف بھیجا۔ انہوں نے کریب کا نام نہیں لیا امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے تین اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، لیکن لیث کی روایت میں بھیجنے والے کا نام نہیں بیان کیا گیا کہ وہ کریب تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|