صحيح مسلم
كِتَاب الطَّلَاقِ
طلاق کے احکام و مسائل
4. باب بَيَانِ أَنَّ تَخْيِيرَ امْرَأَتِهِ لاَ يَكُونُ طَلاَقًا إِلاَّ بِالنِّيَّةِ:
باب: تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو۔
حدیث نمبر: 3681
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حدثنا ابْنُ وَهْبٍ. ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، وَاللَّفْظُ لَهُ: أَخْبَرَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ : أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي، فقَالَ: " إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَت: قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَت: ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا {28} وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا {29} سورة الأحزاب آية 28-29، قَالَت: فَقُلْتُ: فِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَت: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ ".
ابن شہاب سے روایت ہے، کہا: مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دیں تو آپ نے (اس کی) ابتدا مجھ سے کی، اور فرمایا: " میں تم سے ایک بات کرنے لگا ہوں۔ تمہارے لیے اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کرنے تک (جواب دینے میں) عجلت سے کام نہ لو۔" انہوں نے کہا: آپ کو بخوبی علم تھا کہ میرے والدین مجھے کبھی آپ سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں (دنیا کا) ساز و سامان دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔" (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے عرض کی: ان میں سے کس بات میں اپنے والدین سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ، اس کا رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہوں۔ کہا: پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج نے وہی کیا جو میں نے کیا تھا
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور یہ الفاظ حرملہ بن یحییٰ تجیبی کے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ اپنی بیویوں کو (دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا) اختیار دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا مجھ سے کی اور فرمایا: ”میں تم سے ایک معاملہ کا ذکر کرنے لگا ہوں۔ تم پر کوئی تنگی نہیں ہے اگر (اس کے بارے میں فیصلہ کرنے میں) جلد بازی سے کام نہ لو۔ حتی کہ اپنے والدین سے صلاح و مشورہ کر لو۔ وہ بیان کرتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اے نبی! اپنی بیویوں سے فرما دیجیئے، اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کی خواہاں ہو، تو آؤ۔ میں تمہیں دنیا کا سازوسامان دوں اور بڑے اچھے طریقہ سے تمہیں رخصت کروں، اور اگر تم اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی خواہاں ہو تو اللہ تعالیٰ نے تم خوب کاروں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔“ (سورۃ احزاب: 28،29)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3681 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3681
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف اسباب و وجوہ کی بنا پر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین سے ناراض ہوئے جو پے در پے یکے بعد دیگرے پیش آئے پہلے شہد والا واقعہ پیش آیا،
اس کے بعد ماریہ قبطیہ کا واقعہ رونما ہو۔
پھر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نان و نفقہ میں اضافہ کے مطالبہ پر متفق ہو گئیں اس طرح کچھ امور پیش آئے جو آ گے آ رہے ہیں جن کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ ایلا کرتے ہوئے ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین سے علیحدگی اختیار کرلی،
اور ایلا کے خاتمہ پر آیت تخییر نازل ہوئی۔
جس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو اپنے پاس رہنے اور جدا ہونے کا اختیار دیا۔
اور آغاز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:
کیونکہ وہی سب سے زیادہ محبوبہ تھیں اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنے سے جدا نہیں کرنا چاہتے تھے،
اس لیے ان کی خیر خواہی کے پیش نظران کی نوخیزی تجربہ کاری سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے یہ مشورہ بھی دیا کہ فیصلہ کرنے میں عجلت سے کام نہ لینا۔
پہلے اپنے والدین سے مشورہ کر لینا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار تھے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی گوارا نہیں کر سکتے تھے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی کمال ذہانت و فطانت اور اصابت فکر کی بنا پر مشورہ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دی یہ واقعہ 9 ہجری میں پیش آیا جس سے معلوم ہوتا ہے۔
اس وقت تک ان کی والدہ اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا بقید حیات تھیں اور باقی ازواج نے بھی اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کا انتخاب کیا۔
اور اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےانہیں طلاق تفویض کی تھی کہ وہ طلاق لینے کا حق رکھتی ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دینے کا وعدہ اس شرط پر کیا تھا جب وہ دنیا کو اختیار کر لیں گی۔
امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ،
تفویض کے قائل ہیں اور امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ وعدہ کے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3681
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3203
´اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے اپنی قربت دکھانے کے لیے حلال رکھا اور اپنی مخلوق کے لیے حرام کر دیا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ آپ اپنی ازواج کو (دو بات میں سے ایک کو اپنا لینے کا) اختیار دیں۔ اس کی ابتداء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سب سے پہلے) میرے پاس آ کر کی۔ آپ نے فرمایا: ”میں تم سے ایک بات کا ذکر کرتا ہوں لیکن جب تک تم اپنے والدین سے مشورہ نہ کر ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3203]
اردو حاشہ:
(1) جب مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہونے لگیں اور اس کے نتیجے میں مال غنیمت کی بھی کثرت ہوئی تو مسلمانوں کی مالی حالت بھی پہلے سے قدرے بہتر ہوگئی۔ رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن بھی انسان ہی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ان کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انہیں بھی پہلے کی نسبت کچھ زیادہ سہولتیں حاصل ہوں، جس کا اظہار انہوں نے رسول اللہﷺ سے کیا۔ اس سے آپ پریشان ہوگئے تو اللہ تعا لیٰ نے اس کا حل تجویز فرمایا کہ آپ اپنی عورتوں کو صاف بتا دیں کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا کام کررہا ہوں۔ دنیا کی زیب وزینت سے بہت دورہوں۔ اگر تم نے میرے ساتھ رہنا ہے تو تمہیں میری طرح جھوٹا موٹا کھا کر ہی گزارا کرنا ہوگا۔ اگر تم اس طرح درویشانہ طریقے سے زندگی گزارسکو تو بہتر ہے، اور اگر تم میری طرح نہیں رہ سکتیں اور تمہیں زیادہ مال چاہیے تو میں برضا ورغبت بغیر کسی ناراضی کے تمہیں اپنی زوجیت سے فارغ کردیتا ہوں، جہاں چاہے نکاح کرلو۔ مگر آفرین ہے آپ کی ازواج مطہرات پر کہ کسی نے بھی دنیا کا نام نہ لیا اور پھر کبھی مرتے دم تک درویشی نہ چھوڑی۔ رسول اللہﷺ کی زوجیت (دنیا وجنت میں) اور اللہ تعالیٰ کے اجروعظیم پرشاداں وفرحاں رہیں۔ کبھی فقر وفاقہ کی شکایت نہ کی۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْهنْ وأرضاھن
(2) امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ آپ کا خاصہ شمار فرمایا ہے کیونکہ ہمارے لیے فرض ہے کہ بیویوں کو ان کا کھانا، پینا اور لباس ہر صورت مہیا کریں۔ اور یہ ان کا حق ہے، لہٰذا ہم اپنی بیویوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہیں میرے ساتھ بھوکا رہنا ہوگا ورنہ طلاق لے لو۔ لیکن رسول اللہﷺ کے لیے ایسا اعلان واجب تھا کیونکہ آپ کی شان بہت بلند ہے۔ نبی کے گھر میں نبوی مزاج والی عورتیں ہی مناسب ہیں تاکہ نبی کو پریشانی نہ ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کا درجہ بھی بلند رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ﴾
(2) خیروبھلائی کے کاموں میں سبقت کرنی چاہیے اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینی چاہیے۔ ا س کا اجر عظیم ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3203
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3469
´شوہر کے پاس رہنے یا اس سے الگ ہونے کے اختیار کی مدت متعین کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیویوں کو اختیار دینے کا حکم دیا ۱؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (اختیار دہی) کی ابتداء مجھ سے کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں تو ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر فیصلہ لینے میں جلدی نہ کرنا“ ۲؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بخوبی سمجھتے تھے کہ میرے ماں باپ آپ سے جدا ہونے کا کبھی مشورہ نہ د۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3469]
اردو حاشہ:
(1) خاوند اپنی بیوی کو طلاق کا اختیار دے سکتا ہے کہ اگر تو چاہے تو طلاق لے لے۔ اگر عورت جواب میں کہے: میں نے طلاق لے لی تو اسے طلاق ہوجائے گی۔ البتہ اختلاف ہے کہ وہ طلاق رجعی مدت مقرر کردے تو اس مدت میں بھی وہ کسی وقت طلاق اختیار کرسکتی ہے جیسے رسول اللہﷺنے حضرت عائشہؓ کو مہلت دی کہ فوراً جواب نہ دے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرنے کے بعد جواب دے دینا۔
(2) نبیﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے ابتدائی دور میں آپ سے اخراجات کے مطالبے کیے تھے جو آپ کی دسترس سے باہر تھے‘ نیز وہ آپ کی نبوی مزاج کے بھی خلاف تھے‘ اس لیے آپ کو پریشانی ہوئی۔ اللہ تعا لیٰ نے حل تجویز فرمایا کہ آپ کی بیویوں کا مزاج‘ نبوی مزاج کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہیں۔ توجہ دنیا کی بجائے عقبیٰ کی طرف ہو۔ اگر ہو اس مزاج کو اختیار نہ کرسکیں تو آپ سے طلاق لے لیں اور دنیا کہیں اور تلاش کرلیں۔ آپ نے یہی بات اپنی بیویوں سے ارشاد فرمائی۔ مقصد ان کی تربیت تھا۔ ایک ماہ تک وہ رسول اللہﷺ کی جدائی سے بہت کچھ سیکھ چکی تھیں‘ لہٰذا سب نے رسول اللہﷺ اور آخرت کو پسند کیا اور ہر عسرویسر میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور پھر آخر زندگی تک ان کی زبان سے کوئی مطالبہ نہ نکلا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْهُن وَأَرْضَاهُنَّ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3469
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3470
´شوہر کے پاس رہنے یا اس سے الگ ہونے کے اختیار کی مدت متعین کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «إن كنتن تردن اللہ ورسوله» اتری تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے مجھ سے بات چیت کی، آپ نے فرمایا: ”عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تو تم اپنے ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔“ آپ بخوبی جانتے تھے کہ قسم اللہ کی میرے ماں باپ مجھے آپ سے جدائی اختیار کر لینے کا مشورہ و حکم دینے والے ہرگز نہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3470]
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ یہ حدیث معمر عن الزہری عن عروہ کے طریق سے محفوظ ہے اور یونس وموسیٰ عن الزہری عن ابی سلمہ کے طریق سے محفوظ ہے لیکن امام صاحب رحمہ اللہ کا یہ خیال محل نظر معلوم ہوتا ہے کیونکہ معمر‘ عروہ سے بیان کرنے میں منفرد نہیں بلکہ ان کی متابعت موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”معمرکی‘ عروہ سے بیان کرنے میں جعفر بن برقان نے متابعت کی ہے۔ ممکن ہے زہری نے یہ حدیث (عروہ اور ابوسلمہ) دونوں سے سنی ہو‘ انہوں نے کبھی ایک سے بیان کردیا اور کبھی دوسرے سے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ دیکھیے: (فتح الباري: 8/523) معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طریق محفوظ ہیں اور حدیث دونوں طرق سے صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3470
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2053
´مرد اپنی بیوی کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «وإن كنتن تردن الله ورسوله» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس آ کر فرمایا: ”عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تم اس میں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کر لینا جلد بازی نہ کرنا“، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! آپ خوب جانتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی آپ کو چھوڑ دینے کے لیے نہیں کہیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر یہ آیت پڑھی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» (سورة الأحزاب: 28) ”اے نبی! اپنی بیویو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2053]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے ان تک اللہ کا یہ پیغام پہنچایا۔
(2)
اس میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی رسو ل اللہﷺ سے محبت کا بیان ہے۔
(3)
امہات المومنین کے عظیم ایمان اور آخرت کےاجر و ثواب کی طلب کا ذکر ہے جس کی وجہ سے انہوں نے دنیا کی عیش و عشرت کی بجائے آخرت کے ثواب کے حصول کا فیصلہ فرمالیا۔
(4)
رسول اللہﷺ کی یہ خواہش کہ والدین سے مشورہ کرکے جواب دیں، اس لیے تھی کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کم عمری کی وجہ سے کوئی غلط جذباتی فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔
(5)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کے ایمان کی پختگی اور ایمانی فراست پر نبیﷺ کا اعتماد۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2053
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3318
´سورۃ التحریم سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میری برابر یہ خواہش رہی کہ میں عمر رضی الله عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما» ”اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں (یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں“ (التحریم: ۴)، (مگر مجھے موقع اس وقت ملا) جب عمر رضی الله عنہ نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، میں نے ڈول سے پانی ڈال کر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3318]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں (یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں،
(التحریم: 4)
2؎:
مطلب یہ ہے اگر اس حرکت پر نبیﷺعائشہ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتے ہیں تو تم بھی اس بھرے میں مت آؤ،
وہ تو تم سے زیادہ حسن وجمال کی مالک ہیں،
ان کا کیا کہنا!۔
3؎:
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی خوش رنگیاں چاہئے،
تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دوں،
اورخوش اسلوبی سے تم کو رخصت کر دوں،
اور اگر تمہیں اللہ اور اس کا رسول چاہیں اور آخرت کی بھلائی چاہیں تو بے شک اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے،
(الأحزاب: 28، 29)
نوٹ:
(سند میں بظاہر انقطاع ہے،
اس لیے کہ ایوب بن ابی تمیمہ کیسانی نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ نہیں پایا،
اور امام مسلم نے اس ٹکڑے کو مستقلاً نہیں ذکر کیا،
بلکہ یہ ابن عباس کی حدیث کے تابع ہے،
اور ترمذی نے ابن عباس کی حدیث کی تصحیح کی ہے،
لیکن اس فقرے کا ایک شاہد مسند احمد میں (3 /328) میں بسند ابوالزبیر عن جابرمرفوعاً ہے،
جس کی سند امام مسلم کی شرط پر ہے،
اس لیے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے،
الصحیحة: 1516)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3318
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4786
4786. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دے دیں تو (سب سے) پہلے آپ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”میں تم سے ایک معاملے کے متعلق کہنے آیا ہوں، اس معاملےمیں جلد بازی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کر کے جواب دینا۔“ اور آپ یہ بات خوب جانتے تھے کہ میرے والدین آپ سے علیحدگی اختیار کرنے کا مشورہ کبھی نہیں دیں گے، چنانچہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: ”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیں، اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی زیب و زینت چاہتی ہو۔۔ بہت بڑا اجر ہے۔“ میں نے کہا: میں اس معاملے میں اپنے والدین سے کیا مشورہ کروں گی؟ میں تو اللہ، اس کے رسول اور عالم آخرت کی خواہاں ہوں۔ (حضرت عائشہ ؓ) فرماتی ہیں کہ پھر نبی ﷺ کی دوسری بیویوں نے بھی وہی جواب دیا جو میں نے دیا تھا۔ اس کی متابعت موسٰی بن اعین نے معمر سے کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4786]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں اس وقت تو بیویاں تھیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قریش سے تھیں اور باقی چار، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اورحضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،ان کے علاوہ تھیں۔
2۔
فتوحات کے نتیجہ میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے سے بہتر ہو گئی تو انصار اور مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے بھی نان و نفقے میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سادگی پسند تھے اس لیے ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے اس مطالبے سے سخت رنجیدہ ہوئے اور آپ نے بیویوں سے ایک ماہ کے لیے علیحدگی اختیار کر لی۔
جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں تشریف لائے اور اجازت چاہی۔
آپ نے انھیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔
سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ آپ کے پاس آپ کی بیویاں غمگین اور خاموش بیٹھی ہیں۔
آپ نے فرمایا ”میرے گرد بیٹھی خرچ کا مطالبہ کر رہی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔
“ پھر آپ نے ان سے ایک مہینے کے لیے علیحدگی اختیار کر لی۔
(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3690۔
(1478)
3۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ کے بعد بالا خانے سے نیچے اترے تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی:
آپ نے ایک ماہ کا کہا تھا آج انتیس دن ہوئے ہیں؟ آپ نے انگلیوں کے اشارے سے بتایا کہ مہینہ تیس (30)
دن کا بھی ہوتا اورانتیس (29)
دن کا بھی گویا وہ مہینہ انتیس (29)
دن کا تھا۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 3690۔
(1478)
4۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ مرد اگر بیوی کو اختیار دیتا ہے تو اسے طلاق قرار دیا جائے گا لیکن یہ بات غلط ہے کیونکہ اگر عورت علیحدگی اختیار نہیں کرتی تو کسی صورت میں طلاق نہیں ہو گی جیسا کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے علیحدگی کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا پسند کیا تو اس اختیار کو طلاق شمار نہیں کیا گیا۔
(صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1910)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4786