حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگ رہے تھے۔ انہوں نے لوگوں کو آپ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے پایا۔ ان میں سے کسی کو اجازت نہیں ملی تھی۔ کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اجازت ملی تو وہ اندر داخل ہو گئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے اجازت مانگی، انہیں بھی اجازت مل گئی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین اور خاموش بیٹھے ہوئے پایا، آپ کی بیویاں آپ کے ارد گرد تھیں۔ کہا: تو انہوں (ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں ضرور کوئی ایسی بات کروں گا جس سے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساؤں گا۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کاش کہ آپ بنت خارجہ کو دیکھتے جب اس نے مجھ سے نفقہ کا سوال کیا تو میں اس کی جانب بڑھا اور اس کی گردن دبا دی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ اور فرمایا: "یہ بھی میرے اردگرد بیٹھی ہیں، جیسے تم دیکھ رہے ہو، اور مجھ سے نفقہ مانگ رہی ہیں۔" ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب اٹھے اور ان کی گردن پر ضرب لگانا چاہتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی جانب بڑھے اور وہ ان کی گردن پر مارنا چاہتے تھے، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اس سے روک دیا۔ مسند احمد: 3/328) اور دونوں کہہ رہے تھے: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چیز کا سوال کرتی ہو جو ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ کہنے لگیں: اللہ کی قسم! آج کے بعد ہم کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیز کا مطالبہ نہیں کریں گی جو آپ کے پاس نہ ہو گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ یا انتیس دن تک کے لیے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ پھر آپ پر یہ آیت نازل ہوئی: "اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دو۔" حتی کہ یہاں پہنچ گئے: "تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بڑا اجر ہے۔" (جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: آپ نے ابتدا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کی اور فرمایا: "اے عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک معاملہ پیش کر رہا ہوں اور پسند کرتا ہوں کہ تم، اپنے والدین سے مشورہ کر لینے تک اس میں جلدی نہ کرنا۔" انہوں نے کہا: کیا میں آپ کے بارے میں، اللہ کے رسول! اپنے والدین سے مشورہ کروں گی! بلکہ میں تو اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چنتی ہوں، اور آپ سے یہ درخواست کرتی ہو کہ جو میں نے کہا ہے، آپ اپنی بیویوں میں سے کسی کو اس کی خبر نہ دیں۔ آپ نے فرمایا: "مجھ سے جو بھی پوچھے گی میں اسے بتا دوں گا، اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا اور لوگوں کے لیے مشکلات ڈھونڈنے والا بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ اللہ نے مجھے تعلیم دینے والا اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بازیابی کی اجازت طلب کی اور لوگوں کو دیکھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر بیٹھے ہیں، ان میں سے کسی کو اجازت نہیں دی گئی، حضرت جابر کہتے ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت مل گئی، تو وہ اندر چلے گئے، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور اجازت طلب کی، انہیں بھی اجازت مل گئی۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد و پیش آپ کی بیویاں تھیں اور آپ غمزدہ خاموش تھے۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دل میں سوچا، میں ایسی بات کہوں گا۔ جس سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی آ جائے گی، تو کہنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اے کاش آپ (میری بیوی) خارجہ کی بیٹی کی حالت دیکھتے! اس نے مجھ سے نان و نفقہ کا سوال کیا۔ تو میں نے کھڑے ہو کر اس کا گلا دبوچ لیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا: ”یہ میرے گرد ہیں، جیسا کہ دیکھ رہے ہو اور مجھ سے نفقہ کا سوال کر رہی ہیں۔“ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اٹھ کر عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے اور اس کا گلہ دبانا شروع کر دیا، اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیر عنہ اٹھ کر حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے اور اس کا گلا گھونٹنا شروع کر دیا دونوں کہہ رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیز مانگ رہی ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں ہے، تو انہوں نے کہا، اللہ کی قسم! یہ آپ سے کبھی بھی ایسی چیز کا سوال نہیں کریں گی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں ہو گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ایک ماہ یا انتیس دن الگ تھلگ رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (اے نبی! اپنی بیویوں کو فرما دیجیئے۔ اللہ تعالیٰ نے تم خوب کاروں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے) تک۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ سے ابتدا کی اور فرمایا: ”اے عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک معاملہ پیش کرنا چاہتا ہوں، میں اس بات کو پسند کرتا ہوں، تم اس میں جلد بازی سے کام نہ لینا، حتی کہ اپنے والدین سے مشورہ کر لو۔“ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا، وہ کیا ہے؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آیت سنائی، اس نے جواب دیا کہ آپ کے بارے میں۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے والدین سے مشورہ لوں؟ بلکہ میں اللہ، اس کے رسول اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری بات کو اپنی کسی بیوی کو نہ بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے جو بھی پوچھے گی، میں اس کو بتا دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے دشواری پیدا کرنے والا اور لغزشوں کا خواہاں بنا کر نہیں بھیجا، لیکن مجھے تعلیم دینے والا اور آسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔“