جماع أَبْوَابِ قَسْمِ الْصَّدَقَاتِ وَذِكْرِ أَهْلِ سُهْمَانِهَا زکوٰۃ کی تقسیم کے ابواب کا مجموعہ اور مستحقین کی زکوٰۃ کا بیان 1630. (75) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الصَّدَقَةَ الْمُحَرَّمَةَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هِيَ الصَّدَقَةُ الْمَفْرُوضَةُ الَّتِي أَوْجَبَهَا اللَّهُ فِي أَمْوَالِ الْأَغْنِيَاءِ لِأَهْلِ سُهْمَانِ الصَّدَقَةِ، دُونَ صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف فرضی زکوٰۃ حرام ہے جو اللہ تعالی نے مستحقین زکوٰۃ کے لئے مالداروں کے اموال میں واجب کی ہے
تخریج الحدیث:
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو زکوٰة کی وصولی کے لئے بھیجا تو اُس نے مجھ سے کہا کہ میرے ساتھ چلو (تا کہ تم بھی مال حاصل کرسکو) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے مخزومی شخص کو فرض زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا ہے۔“ لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ سے یہ کہنا: ”بیشک ہمارے لئے زکوٰة کا مال حلال نہیں ہے۔“ یہ آپ کا جواب اس صدقے کے بارے میں تھا جس فرضی صدقے کے بارے میں سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ نے(وصول کنندہ کی) معاونت کرنے کے بارے میں سوال کیا تھا۔
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ میں نے زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اُٹھالی اور یہ کھجور، کھجوروں کی فرض زکوٰۃ کے دسویں یا بیسویں حصّے میں سے تھی۔
تخریج الحدیث:
اور حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ کی روایت میں بھی (فرضی زکوٰۃ کی وضاحت ہے) جب وہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور آپ سے زکوٰۃ کی وصولی پر عامل مقرر کرنے کا سوال کیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بتایا تھا کہ یہ زکوٰۃ لوگوں کی میل کچیل ہے اور یہ مال محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل کے لئے حلال نہیں ہے اور بلاشبہ اُنہوں نے فرضی زکوٰۃ کی وصولی پر عامل مقرر کرنے کا سوال کیا تھا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دونوں کو یہ جواب دینا کہ یہ صدقہ جس پر تم نے عامل مقرر کیے جانے کا مجھ سے سوال کیا ہے یہ تو لوگوں کی میل کچیل ہے اور یہ مال محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل کے لئے حلال نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
|