جماع أَبْوَابِ صَدَقَةِ الْمَوَاشِي مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ اونٹ، گائے اور بکریوں کی زکوٰۃ کے ابواب کا مجموعہ 1574. (19) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا تَجِبُ فِي الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ فِي سِوَائِمِهَا دُونَ غَيْرِهِمَا، ضِدُّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ فِي الْإِبِلِ الْعَوَامِلِ صَدَقَةً. اس بات کی دلیل کا بیان کہ چرنے والے اونٹ اور بکریوں میں زکوٰۃ واجب ہے ان کے علاوہ دوسروں میں واجب نہیں اور اس میں لوگوں کی نفی ہے جو کہتے ہیں کام کاج اور بوجھ اُٹھانے والے اونٹوں پر زکوٰۃ ہے
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ چرنے والی بکریاں جب چالیس سے لے کر ایک سو بیس تک ہوں تو ان میں ایک بکری زکوٰۃ ہے۔ یہ حدیث میں نے پہلے لکھوادی ہے۔
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
سیدنا بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”باہر چرنے والے اونٹوں میں ہر چالیس اونٹوں میں ایک دو سالہ اونٹنی زکوٰۃ ہے۔ حساب سے اونٹ الگ نہ کیے جائیں۔ جس شخص نے اجر و ثواب کی نیت سے زکوٰۃ ادا کی تو اسے اس کا اجر ملے گا اور جس شخص نے زکوٰۃ روک لی تو ہم اُس سے (زبردستی) وصول کرلیںگے اور اس کے آدھے اونٹ بھی (بطور سزا) لے لیںگے۔ یہ ہمارے رب کے فرائض میں سے ایک فرض ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آل کے لئے اس میں سے کچھ حلال نہیں۔“ صنعانی کہتے ہیں ہر چالیس میں ایک دو سالہ اونٹنی ہے۔ اور جناب بندار کی روایت میں ہے ”اور جس شخص نے انکار کیا تو میں اس سے (زبردستی) زکوٰۃ وصول کروںگا اور آدھا مال بھی (بطور جرمانہ) لے لوںگا اور فرمایا: ”اونٹوں کو حساب سے الگ نہ کیا جائے۔“
تخریج الحدیث: اسناده حسن
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے احکام لکھوائے تھے پھر اپنے حکام اور عمال کو بھیجنے سے پہلے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے۔ اور مکمّل حدیث بیان کی۔ اور کہا کہ ”چرنے والی چالیس بکریوں میں ایک بکری زکوٰۃ ہے، ایک سو بیس بکریاں ہونے تک یہی زکوٰۃ ہے۔“ پھر باقی حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: حسن لغيره
|