جماع أَبْوَابِ صَدَقَةِ الْمَوَاشِي مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ اونٹ، گائے اور بکریوں کی زکوٰۃ کے ابواب کا مجموعہ 1570. (15) بَابُ فَرْضِ صَدَقَةِ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ اونٹوں اور بکریوں کی زکوٰۃ کی فرضیت کا بیان
تخریج الحدیث:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو انہوں نے مجھے بحرین کا گورنر بنا کر بھیجا اور میرے لئے یہ تحریر لکھوائی ”بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ“ یہ زکوٰۃ کی فرضیت کے وہ احکام ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض کئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان کا حُکم دیا ہے۔ لہٰذا جس مسلمان سے ان احکام کے مطابق زکوٰۃ طلب کی جائے تو وہ ادا کردے اور جس سے اس سے زیادہ طلب کی جائے تو وہ ادا نہ کرے۔ چوبیس اونٹوں یا چوبیس سے کم اونٹوں میں ہر بانچ اونٹوں پر ایک بکری زکوٰۃ فرض ہے۔ پھر جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو پنیتیس اونٹوں تک ایک سالہ اونٹنی زکوٰۃ ہے لیکن اگر ان میں ایک سالہ اونٹنی موجود نہ ہو تو دو سال کا مذکر اونٹ دے دینا چاہیے۔ پھر جب اونٹوں کی تعداد چھتیس سے پینتالیس ہو جائے تو ان میں دو سالہ اونٹنی فرض ہے اور جب اونٹ چھیالیس سے ساٹھ تک ہوجائیں تو ان میں تین سال کی اونٹنی فرض ہے جو (نراونٹ کے ساتھ) جفتی کے قابل ہوچکی ہو اور جب اکسٹھ اونٹ ہوجائیں پچھتّر اونٹوں تک چار سالہ اونٹنی زکوٰۃ فرض ہے۔ پھر جب تعداد چھہتّر ہو جائے تو نوے اونٹوں تک دو دو سالہ اونٹنیاں فرض ہیں۔ پھر جب اکیانوے اونٹ ہوجائیں تو ایک سوبیس اونٹوں تک دوتین سالہ اونٹنیاں فرض ہیں جو نرکی جفتی کے قابل ہوں۔ پھر جب ایک سو بیس اونٹوں سے تعداد زیادہ ہوجائے تو پھر ہر چالیس اونٹوں میں ایک دو سالہ اونٹنی زکوٰۃ ہے اور ہر پچاس اونٹوں میں ایک تین سال کی اونٹنی فرض ہے اور جس شخص کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں کوئی زکوٰۃ فرض نہیں ہے الاّیہ کہ مالک اپنی خوشی سے کچھ ادا کردے۔ جب پانچ اونٹ ہو جائیں تو ان میں ایک بکری زکوٰۃ ہے اور باہر چرنے والی بکریوں میں چالیس سے لیکر ایک سو بیس تک ایک بکری زکوٰۃ فرض ہے اور جب ایک سو بیس سے بڑھ جائیں تو دو سو تک دو بکریاں فرض ہیں اور جب دوسو سے بڑھ جائیں تو تین سوتک تین بکریاں فرض ہیں اور جب تین سو سے تعداد بڑھ جائے تو پھر ہرسومیں ایک بکری زکوٰۃ فرض ہے اور جب کسی شخص کی باہر چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہو تو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے الاّ یہ کہ مالک خود ادا کردے۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ یہ جناب بندار کی حدیث ہے۔ کہتے ہیں کہ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ”جب اونٹنی بچّہ پیداکرلیتی ہے اور اس کی عمر مکمّل ایک سال ہو جاتی ہے اور بچّہ دوسرے سال میں داخل ہو جاتا ہے تو اگر وہ مذکر ہو تو اسے ابن مخاض کہا جاتا ہے اور اگر مؤنث ہو تو اسے بنت مخاض کہتے ہیں کیونکہ اونٹنی بچّے کو جنم دینے کے بعد ایک سال تک اونٹ کے ساتھ جفتی کے لئے اس کے قریب نہیں جاتی۔ پھر ایک سال مکمّل ہونے پر وہ نر اونٹ کے پاس جفتی کے لئے جاتی ہے اور جب اونٹ اسکے ساتھ تعلق قائم کرلیتا ہے تو اسے مخاض شمار کیا جاتا ہے۔ ایسی اونٹنیوں کو جو حاملہ ہوتی ہیں اور کسی بچّے کی ماں بھی ہوتی ہیں انہیں مواخض کہا جاتا ہے۔ ماخض اس اونٹنی کو کہتے ہیں جس کے پیٹ میں بچّہ حرکت کرے۔ لہٰذا اس اونٹنی کے (پہلے) بچّے کو ابن مخاض کہتے ہیں اور بچّی کو بنت مخاض کہتے ہیں۔ اس طرح اونٹنی دوسرے سال حاملہ رہتی ہے۔ پھر وہ بچّہ جنتی ہے تو اسے ّ اور اس کے بیٹے کو ابن لبون اور اس کی بیٹی کو بنت لبون کہا جاتا ہے۔ جبکہ بچّہ دو سال کا ہو چکا ہوتا ہے اور وہ تیسرے سال میں داخل ہوجاتا ہے۔ پھر جب وہ بچّہ تیسرا سال مکمل کرکے چوتھے سال میں داخل ہوجاتا ہے تو اسے حقه کہا جاتا ہے اور اسے حقه اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اگر وہ مؤنث ہو تو وہ اس عمر میں نر کے ساتھ جفتی اور بوجھ اُٹھانے کے قابل ہوجاتی ہے اور نر ہو تو وہ بھی سواری اور باربرداری کے قابل ہوجاتا ہے۔ جبکہ اس عمر سے پہلے اس کی نسبت اس کی ماں کی طرف کی جاتی ہے۔ لہٰذا جب اونٹ ایک سال کا ہو جائے اور دوسرے سال میں داخل ہو جائے تو اس کو ابن مخاض کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی ماں مخاض کہلاتی ہے اور جب اس کی عمر دو سال ہو اور وہ تیسرے سال داخل ہو جائے تو اسے ابن لبون کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی ماں دوسرا حمل جننے کے بعد لبون ہوتی ہے۔ (یعنی اس کے تھنوں میں دودھ اتر آتا ہے) اور اسے حقه مذکورہ بالا علت کی وجہ سے کہا جاتا ہے یعنی وہ بوجھ وغیرہ اُٹھانے کے قابل ہوجاتا ہے اور جب وہ مکمّل چار سال کا ہو جاتا ہے اور پانچویں سال میں داخل ہو جاتا ہے تو اسے جَزَعَة کہتے ہیں۔ پھر جب اس کی عمر مکمّل پانچ سال ہو جائے اور وہ چھٹے سال میں داخل ہو جائے تو اسے ثَنِيٌّ کہا جاتاہے۔ اور جب چھٹا سال گزرجائے اور ساتویں سال میں داخل ہو جائے تو اسے رَبَاع کہتے ہیں اور مونث کو رَبَاعيه کہتے ہیں۔ ساتویں سال میں اس کا نام یہی رہتا ہے۔ پھر جب آٹھویں سال میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے رباعی دانتوں کے بعد والے دانت گرجاتے ہیں اس وقت اسے سَدِيْسٌ اور سُدُسٌ کہا جاتا ہے۔ اس عمر میں نر اور مادہ دونوں کا ایک ہی نام ہے۔ آٹھواں سال مکمّل ہونے تک اس کا یہی نام رہتا ہے۔ پھر جب آٹھواں سال گزر جاتا ہے اور نواں سال شروع ہوتا ہے تو اس کے کچلی والے دانت نکل آتے ہیں۔ اس وقت اسے بَازِلٌ (کچلی والا اونٹ) کہتے ہیں۔ مؤنث کو بھی بازل ہی کہتے ہیں۔ نویں سال کے گزرنے تک اسے بازل ہی کہتے ہیں اور جب دسویں سال میں داخل ہوجاتا ہے تو اسے مخلف کہتے ہیں مخلف کے بعد اس کا کوئی نام نہیں ہوتا بلکہ اسے ایک سالہ بازل، دو سالہ بازل یا ایک سالہ مخلف اور دو سالہ مُخْلِفٌ وغیرہ کہا جاتا ہے اور اونٹ بوڑھا ہو جائے تو اسے عَوْدٌ کہا جاتا ہے اور مونث کو عَوْده کہتے ہیں اور جب بالکل بوڑھا ہو جائے تو اسے قَحَر کہتے ہیں جبکہ مادہ کو ثَابٌ اور شَارِفٌ کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
|