والدليل على ضد قول من زعم ان الجنب إذا دخل نهرا ناويا للسباحة فماس الماء جميع بدنه، ولم ينو غسلا ولا اراده إذا فرض الغسل، ولا تقربا إلى الله- عز وجل- او صب عليه ماء وهو مكره، فماس الماء جميع جسده ان فرض الغسل ساقط عنه.وَالدَّلِيلُ عَلَى ضِدِّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الْجُنُبَ إِذَا دَخَلَ نَهْرًا نَاوِيًا لِلسِّبَاحَةِ فَمَاسَّ الْمَاءُ جَمِيعَ بَدَنِهِ، وَلَمْ يَنْوِ غُسْلًا وَلَا أَرَادَهُ إِذَا فُرِضَ الْغُسْلُ، وَلَا تَقَرُّبًا إِلَى اللَّهِ- عَزَّ وَجَلَّ- أَوْ صُبَّ عَلَيْهِ مَاءٌ وَهُوَ مُكْرَهٌ، فَمَاسَّ الْمَاءُ جَمِيعَ جَسَدِهِ أَنَّ فَرْضَ الْغُسْلِ سَاقِطٌ عَنْهُ.
اور ان علماء کے دعویٰ کے برعکس دلیل کا بیان جو کہتے ہیں کہ جنبی شخص جب تیراکی کی نیت سے نہر میں داخل ہو گیا، اور پانی اس کے سارے بدن کو لگ گیا حالانکہ غسل فرض ہونے کے بعد اُس نے غسل کی نیت کی نہ اٌس کا ارادہ کیا اور نہ اللہ تعالی کے تقرب کا حصول اس کا مقصد تھا، یا اُس پر زبردستی پانی ڈال دیا گیا جسے وہ نا پسند کرے جو اُس کے سارے جسم کو لگ گیا تو غسل کی فرضیت اس سے ساقط ہو جائے گی۔
قال ابو بكر: قد امليت خبر عمر بن الخطاب، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " الاعمال بالنية , وإنما لامرئ ما نوى.قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ أَمْلَيْتُ خَبَرَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ , وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى.
امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کر چکا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال کا دارومدار نیت پرہے اور آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اُس نے نیت کی۔“