جُمَّاعُ أَبْوَابِ ذِكْرِ الْمَاءِ الَّذِي لَا يَنْجُسُ، وَالَّذِي يَنْجُسُ إِذَا خَالَطَتْهُ نَجَاسَةٌ اس پانی کے ابواب کے مجموعے کا بیان جو ناپاک نہیں ہوتا اور وہ پانی جو نجاست ملنے سے ناپاک ہو جاتا ہے 89. (89) بَابُ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ أَبْوَالَ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ لَيْسَ بِنَجَسٍ، وَلَا يَنْجُسُ الْمَاءُ إِذَا خَالَطَهُ اس بات کی دلیل کا بیان کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب ناپاک نہیں ہے اور اگر وہ پانی میں مل جائے تو پانی پلید نہیں ہوتا
کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُونٹوں کے پیشاب کو اُن کے دودھ کے ساتھ پینے کا حُکم دیا ہے، اور اگر اُن کا پیشاب ناپاک ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے پینے کا حُکم نہ دیتے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان فرما چکے ہیں کہ حرام چیز میں شفا نہیں ہے۔ اور اُونٹوں کے پیشاب سے شفا حاصل کرنے کا حُکم بھی دیا ہے۔ لہذا اگر وہ ناپاک ہوتا تو حرام ہوتا اور شفا کی بجائے بیماری ہوتا، اور اُس میں شفا نہ ہوتی جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ (اے اللہ کے رسول) کیا شراب کو بطور دوا استعمال کر لیا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شراب تو بیماری ہے، دوا نہیں ہے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عکل اور عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ یا کچھ آدمی مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم مویشیوں والے لوگ ہیں (مویشی پالتے ہیں) اور کھیتی باڑی کرنے والے نہیں ہیں۔ پھر اُنہیں مدینہ منورہ کی آب و ہوا موفق نہ آئی (تو وہ بیمار ہوگئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں کچھ اونٹ اور ایک چرواہا دینے کا حکم دیا اور اُنہیں حکم دیا کہ وہ ان اونٹوں کے ساتھ (مدینہ منورہ سے باہر) چلے جائیں اور ان کے پیشاب اور دودھ پیئں۔ پھر مکمل حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
|