فِي الْحَجِّ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی منقول حج سےمتعلق روایات حدیث نمبر 542
542- یزید بن ہرمز بیان کرتے ہیں۔ نجدہ نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کو خط لکھ کر ان سے ایک عورت اور غلام کا مسئلہ دریافت کیا، جوفتح میں شریک ہوتے ہیں کیا ان دونوں کو حصہ ملے گا (اور جنگ کے دوران) بچوں کو قتل کرنے کے بارے میں دریافت کیا: اور یتیم کے بارے میں دریافت کیا۔ اس سے یتیم کا نام کب ختم ہو گا اور ذوی القربٰی کے بارے میں دریافت کیا: اس سے مراد کون لوگ ہیں تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اے یزید تم لکھو۔ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ وہ مزید حماقت کا شکار ہو جائے گا تو میں اسے خط لکھتا۔ تم یہ لکھو:
تم نے مجھے خط لکھ کر مجھ سے یہ دریافت کیا ہے: زوالقربٰی سے مراد کون ہے۔ ہم لوگ سمجھتے ہیں اس سے مراد ہم ہیں۔ لیکن ہماری قوم ہماری اس بات کو تسلیم نہیں کرتی۔ تم نے مجھ سے ایسی عورت اور غلام کے بارے میں دریافت کیا ہے، جو فتح میں شریک ہوتے ہیں کیا انہیں کوئی چیز ملے گی تو ان دونوں کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ البتہ انہیں ویسے عطیے کے طور پرکوئی چیز دے دی جائے گی۔ تم نے مجھ سے یتیم کے بارے میں دریافت کیا ہے۔ اس پریتیم کا نام کب ختم ہوگا تو اس پر سے یتیم کا نام اس وقت تک ختم نہیں ہوگا، جب تک وہ بالغ نہیں ہو جاتا اور اس سے سمجھداری کے آثار ظاہر نہیں ہوتے۔ تم نے مجھ سے (جنگ کے دوران) بچوں کو قتل کرنے کے بارے میں دریافت کیا ہے: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بچوں کو قتل نہیں کیا اور تم بھی انہیں قتل نہیں کر سکتے ماسوائے اس صورت کے کہ تمہیں ان بچوں کے بارے میں ویسا ہی علم ہوجیسا علم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی سیدنا خضر علیہ السلام کو اس لڑکے کے بارے میں تھا، جسے انہوں نے قتل کردیا تھا۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1812، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4824، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4144، 4145، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4419، 4420، 8563، 11513، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2727، 2728، 2982، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1556، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2514، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 1992، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2550، 2630، 2631، 2739»
|