(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثنا سالم بن ابي امية ابو النضر ، قال: جلس إلي شيخ من بني تميم في مسجد البصرة، ومعه صحيفة له في يده، قال: وفي زمان الحجاج، فقال لي: يا عبد الله، اترى هذا الكتاب مغنيا عني شيئا عند هذا السلطان؟ قال: فقلت: وما هذا الكتاب؟ قال: هذا كتاب من رسول الله صلى الله عليه وسلم كتبه لنا ان لا يتعدى علينا في صدقاتنا , قال: فقلت: لا والله ما اظن ان يغني عنك شيئا، وكيف كان شان هذا الكتاب؟ قال: قدمت المدينة مع ابي، وانا غلام شاب، بإبل لنا نبيعها، وكان ابي صديقا لطلحة بن عبيد الله التيمي، فنزلنا عليه، فقال له ابي: اخرج معي، فبع لي إبلي هذه , قال: فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد نهى ان يبيع حاضر لباد، ولكن ساخرج معك فاجلس، وتعرض إبلك، فإذا رضيت من رجل وفاء وصدقا ممن ساومك، امرتك ببيعه , قال: فخرجنا إلى السوق، فوقفنا ظهرنا، وجلس طلحة قريبا، فساومنا الرجال، حتى إذا اعطانا رجل ما نرضى , قال له ابي: ابايعه؟ قال: نعم، قد رضيت لكم وفاءه فبايعوه , فبايعناه، فلما قبضنا ما لنا، وفرغنا من حاجتنا، قال ابي لطلحة : خذ لنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا ان لا يتعدى علينا في صدقاتنا , قال: فقال: هذا لكم، ولكل مسلم , قال: على ذلك، إني احب ان يكون عندي من رسول الله صلى الله عليه وسلم كتاب , قال: فخرج حتى جاء بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن هذا الرجل من اهل البادية صديق لنا، وقد احب ان تكتب له كتابا لا يتعدى عليه في صدقته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذا له ولكل مسلم" , قال: يا رسول الله، إنه قد احب ان يكون عندي منك كتاب على ذلك , قال: فكتب لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا الكتاب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: جَلَسَ إِلَيَّ شَيْخٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ فِي مَسْجِدِ الْبَصْرَةِ، وَمَعَهُ صَحِيفَةٌ لَهُ فِي يَدِهِ، قَالَ: وَفِي زَمَانِ الْحَجَّاجِ، فَقَالَ لِي: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَرَى هَذَا الْكِتَابَ مُغْنِيًا عَنِّي شَيْئًا عِنْدَ هَذَا السُّلْطَانِ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: وَمَا هَذَا الْكِتَابُ؟ قَالَ: هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَهُ لَنَا أَنْ لَا يُتَعَدَّى عَلَيْنَا فِي صَدَقَاتِنَا , قَالَ: فَقُلْتُ: لَا وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ أَنْ يُغْنِيَ عَنْكَ شَيْئًا، وَكَيْفَ كَانَ شَأْنُ هَذَا الْكِتَابِ؟ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ مَعَ أَبِي، وَأَنَا غُلَامٌ شَابٌّ، بِإِبِلٍ لَنَا نَبِيعُهَا، وَكَانَ أَبِي صَدِيقًا لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ التَّيْمِيِّ، فَنَزَلْنَا عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: اخْرُجْ مَعِي، فَبِعْ لِي إِبِلِي هَذِهِ , قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَلَكِنْ سَأَخْرُجُ مَعَكَ فَأَجْلِسُ، وَتَعْرِضُ إِبِلَكَ، فَإِذَا رَضِيتُ مِنْ رَجُلٍ وَفَاءً وَصِدْقًا مِمَّنْ سَاوَمَكَ، أَمَرْتُكَ بِبَيْعِهِ , قَالَ: فَخَرَجْنَا إِلَى السُّوقِ، فَوَقَفْنَا ظُهْرَنَا، وَجَلَسَ طَلْحَةُ قَرِيبًا، فَسَاوَمَنَا الرِّجَالُ، حَتَّى إِذَا أَعْطَانَا رَجُلٌ مَا نَرْضَى , قَالَ لَهُ أَبِي: أُبَايِعُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قد رَضِيتُ لَكُمْ وَفَاءَهُ فَبَايِعُوهُ , فَبَايَعْنَاهُ، فَلَمَّا قَبَضْنَا مَا لَنَا، وَفَرَغْنَا مِنْ حَاجَتِنَا، قَالَ أَبِي لِطَلْحَةَ : خُذْ لَنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا أَنْ لَا يُتَعَدَّى عَلَيْنَا فِي صَدَقَاتِنَا , قَالَ: فَقَالَ: هَذَا لَكُمْ، وَلِكُلِّ مُسْلِمٍ , قَالَ: عَلَى ذَلِكَ، إِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَكُونَ عِنْدِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابٌ , قَال: فَخَرَجَ حَتَّى جَاءَ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ صَدِيقٌ لَنَا، وَقَدْ أَحَبَّ أَنْ تَكْتُبَ لَهُ كِتَابًا لَا يُتَعَدَّى عَلَيْهِ فِي صَدَقَتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا لَهُ وَلِكُلِّ مُسْلِمٍ" , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّه قَدْ أُحِبُّ أَنْ يَكُونَ عِنْدِي مِنْكَ كِتَابٌ عَلَى ذَلِكَ , قَالَ: فَكَتَبَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْكِتَابَ.
ابوالنضر کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں بصرہ کی ایک مسجد میں بنو تمیم کے ایک بزرگ میرے پاس آکر بیٹھ گئے، ان کے ہاتھ میں ایک صحیفہ بھی تھا، وہ مجھ سے کہنے لگے کہ اے اللہ کے بندے! تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ خط اس بادشاہ کے سامنے مجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ میں نے پوچھا کہ یہ خط کیسا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے لکھوایا تھا کہ زکوٰۃ کی وصولی میں ہم پر زیادتی نہ کی جائے، میں نے کہا کہ واللہ! مجھے تو نہیں لگتا کہ اس خط سے آپ کو کوئی فائدہ ہو سکے گا (کیونکہ حجاج بہت ظالم ہے)، البتہ یہ بتائیے کہ اس خط کا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ میں اپنے والد کے ساتھ ایک مرتبہ مدینہ منورہ آیا ہوا تھا، اس وقت میں نوجوان تھا، ہم لوگ اپنا ایک اونٹ فروخت کرنا چاہتے تھے، میرے والد سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے دوست تھے، اس لئے ہم انہی کے یہاں جا کر ٹھہرے۔ میرے والد صاحب نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ چل کر اس اونٹ کو بیچنے میں میری مدد کیجئے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لئے خرید و فروخت کرے، البتہ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں اور آپ کے ساتھ بیٹھ جاؤں گا، آپ اپنا اونٹ لوگوں کے سامنے پیش کریں، جس شخص کے متعلق مجھے یہ اطمینان ہوگا کہ یہ قیمت ادا کر دے گا اور سچا ثابت ہوگا، میں آپ کو اس کے ہاتھ فروخت کرنے کا کہہ دوں گا۔ چنانچہ ہم نکل کر بازار میں پہنچے اور ایک جگہ پہنچ کر رک گئے، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ قریب ہی بیٹھ گئے، کئی لوگوں نے آکر بھاؤ تاؤ کیا، حتی کہ ایک آدمی آیا جو ہماری منہ مانگی قیمت دینے کے لئے تیار تھا، میرے والد صاحب نے ان سے پوچھا کہ اس کے ساتھ معاملہ کر لوں؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، اور فرمایا کہ مجھے اطمینان ہے کہ یہ تمہاری قیمت پوری پوری ادا کر دے گا، اس لئے تم یہ اونٹ اس کے ہاتھ فروخت کر دو، چنانچہ ہم نے اس کے ہاتھ وہ اونٹ فروخت کر دیا۔ جب ہمارے قبضے میں پیسے آگئے اور ہماری ضرورت پوری ہو گئی تو میرے والد صاحب نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مضمون کا ایک خط لکھوا کر ہمیں دے دیں کہ زکوٰۃ کی وصولی میں ہم پر زیادتی نہ کی جائے، اس پر انہوں نے فرمایا کہ یہ تمہارے لئے بھی ہے اور ہر مسلمان کے لئے بھی ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں اسی وجہ سے چاہتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی خط میرے پاس ہونا چاہیے۔ بہرحال! سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ صاحب - جن کا تعلق ایک دیہات سے ہے - ہمارے دوست ہیں، ان کی خواہش ہے کہ آپ انہیں اس نوعیت کا ایک مضمون لکھوا دیں کہ زکوٰۃ کی وصولی میں ان پر زیادتی نہ کی جائے، فرمایا: ”یہ ان کے لئے بھی ہے اور ہر مسلمان کے لئے بھی۔“ میرے والد نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ کا کوئی خط اس مضمون پر مشتمل میرے پاس ہو، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ خط لکھوا کر دیا تھا۔