(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا بكر بن مضر ، عن ابن الهاد ، عن محمد بن إبراهيم ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن , عن طلحة بن عبيد الله , ان رجلين قدما على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان إسلامهما جميعا، وكان احدهما اشد اجتهادا من صاحبه، فغزا المجتهد منهما، فاستشهد، ثم مكث الآخر بعده سنة، ثم توفي , قال طلحة: فرايت فيما يرى النائم كاني عند باب الجنة، إذا انا بهما وقد خرج خارج من الجنة، فاذن للذي توفي الآخر منهما، ثم خرج فاذن للذي استشهد، ثم رجعا إلي، فقالا لي: ارجع، فإنه لم يان لك بعد , فاصبح طلحة يحدث به الناس، فعجبوا لذلك، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" من اي ذلك تعجبون؟" , قالوا: يا رسول الله، هذا كان اشد اجتهادا، ثم استشهد في سبيل الله، ودخل هذا الجنة قبله! فقال:" اليس قد مكث هذا بعده سنة؟" , قالوا: بلى ," وادرك رمضان فصامه؟" , قالوا: بلى , قال:" وصلى كذا وكذا سجدة في السنة؟" , قالوا: بلى , قال رسول الله صلي الله عليه وسلم:" فلما بينهما ابعد ما بين السماء والارض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , أَنَّ رَجُلَيْنِ قَدِمَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ إِسْلَامُهُمَا جَمِيعًا، وَكَانَ أَحَدُهُمَا أَشَدَّ اجْتِهَادًا مِنْ صَاحِبِهِ، فَغَزَا الْمُجْتَهِدُ مِنْهُمَا، فَاسْتُشْهِدَ، ثُمَّ مَكَثَ الْآخَرُ بَعْدَهُ سَنَةً، ثُمَّ تُوُفِّيَ , قَالَ طَلْحَةُ: فَرَأَيْتُ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ كَأَنِّي عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ، إِذَا أَنَا بِهِمَا وَقَدْ خَرَجَ خَارِجٌ مِنَ الْجَنَّةِ، فَأَذِنَ لِلَّذِي تُوُفِّيَ الْآخِرَ مِنْهُمَا، ثُمَّ خَرَجَ فَأَذِنَ لِلَّذِي اسْتُشْهِدَ، ثُمَّ رَجَعَا إِلَيَّ، فَقَالَا لِي: ارْجِعْ، فَإِنَّهُ لَمْ يَأْنِ لَكَ بَعْدُ , فَأَصْبَحَ طَلْحَةُ يُحَدِّثُ بِهِ النَّاسَ، فَعَجِبُوا لِذَلِكَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مِنْ أَيِّ ذَلِكَ تَعْجَبُونَ؟" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا كَانَ أَشَدَّ اجْتِهَادًا، ثُمَّ اسْتُشْهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدَخَلَ هَذَا الْجَنَّةَ قَبْلَهُ! فَقَالَ:" أَلَيْسَ قَدْ مَكَثَ هَذَا بَعْدَهُ سَنَةً؟" , قَالُوا: بَلَى ," وَأَدْرَكَ رَمَضَانَ فَصَامَهُ؟" , قَالُوا: بَلَى , قَالَ:" وَصَلَّى كَذَا وَكَذَا سَجْدَةً فِي السَّنَةِ؟" , قَالُوا: بَلَى , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَي الله عليه وَسَلَم:" فَلَمَا بَيْنَهُمَا أَبْعَدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ".
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ دو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان دونوں نے اکٹھے ہی اسلام قبول کیا، ان میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی کے مقابلے میں بہت محنت کرتا تھا، یہ شخص جو بہت محنت کرتا تھا ایک غزوہ میں شریک ہو کر شہید ہو گیا، دوسرا شخص اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہا، پھر طبعی وفات سے انتقال کر گیا۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت کے دروازے کے قریب ہوں، اچانک وہ دونوں مجھے دکھائی دیتے ہیں، جنت سے ایک آدمی باہر نکلتا ہے اور بعد میں فوت ہونے والے کو اندر داخل ہونے کی اجازت دے دیتا ہے، تھوری دیر بعد باہر آکر وہ شہید ہونے والے کو بھی اجازت دے دیتا ہے، پھر وہ دونوں میرے پاس آتے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ ابھی واپس چلے جائیں ابھی آپ کا وقت نہیں آیا۔ جب صبح ہوئی اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے یہ خواب ذکر کیا تو لوگوں کو بہت تعجب ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تمہیں کس بات پر تعجب ہو رہا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ شخص زیادہ محنت کرتا تھا، پھر اللہ کے راستہ میں شہید بھی ہوا، اس کے باوجود دوسرا آدمی جنت میں پہلے داخل ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وہ اس کے بعد ایک سال تک زندہ نہیں رہا تھا؟“ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، پھر فرمایا: ”کیا اس نے رمضان کا مہینہ پا کر اس کے روزے نہیں رکھے تھے؟“ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، پھر فرمایا: ”کیا اس نے سال میں اتنے سجدے نہیں کئے؟“ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، اس پر فرمایا کہ ”اسی وجہ سے تو ان دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فاصلہ ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، لأن أبا سلمة لم يدرك القصة ولم يسمع من طلحة