(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن عبد ربه ، حدثنا الحارث بن عبيدة ، حدثني محمد بن عبد الرحمن بن مجبر ، عن ابيه ، عن جده , ان عثمان رضي الله عنه , اشرف على الذين حصروه، فسلم عليهم، فلم يردوا عليه، فقال عثمان رضي الله عنه: افي القوم طلحة؟ قال طلحة : نعم , قال: فإنا لله وإنا إليه راجعون، اسلم على قوم انت فيهم فلا يردون؟ قال: قد رددت , قال: ما هكذا الرد، اسمعك ولا تسمعني، يا طلحة، انشدك الله اسمعت النبي صلى الله عليه وسلم , يقول" لا يحل دم المسلم إلا واحدة من ثلاث: ان يكفر بعد إيمانه، او يزني بعد إحصانه، او يقتل نفسا فيقتل بها" , قال: اللهم نعم , فكبر عثمان , فقال: والله ما انكرت الله منذ عرفته، ولا زنيت في جاهلية ولا إسلام، وقد تركته في الجاهلية تكرها، وفي الإسلام تعففا، وما قتلت نفسا يحل بها قتلي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبِيدَةَ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُجَبَّرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ , أَنَّ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَشْرَفَ عَلَى الَّذِينَ حَصَرُوهُ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، فَلَمْ يَرُدُّوا عَلَيْهِ، فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَفِي الْقَوْمِ طَلْحَةُ؟ قَالَ طَلْحَةُ : نَعَمْ , قَالَ: فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، أُسَلِّمُ عَلَى قَوْمٍ أَنْتَ فِيهِمْ فَلَا يَرُدُّونَ؟ قَالَ: قَدْ رَدَدْتُ , قَالَ: مَا هَكَذَا الرَّدُّ، أُسْمِعُكَ وَلَا تُسْمِعُنِي، يَا طَلْحَةُ، أَنْشُدُكَ اللَّهَ أَسَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ" لَا يُحِلُّ دَمَ الْمُسْلِمِ إِلَّا وَاحِدَةٌ مِنْ ثَلَاثٍ: أَنْ يَكْفُرَ بَعْدَ إِيمَانِهِ، أَوْ يَزْنِيَ بَعْدَ إِحْصَانِهِ، أَوْ يَقْتُلَ نَفْسًا فَيُقْتَلَ بِهَا" , قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ , فَكَبَّرَ عُثْمَانُ , فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَنْكَرْتُ اللَّهَ مُنْذُ عَرَفْتُهُ، وَلَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ، وَقَدْ تَرَكْتُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَكَرُّهًا، وَفِي الْإِسْلَامِ تَعَفُّفًا، وَمَا قَتَلْتُ نَفْسًا يَحِلُّ بِهَا قَتْلِي.
ایک مرتبہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے بالا خانے سے ان لوگوں کو جھانک کر دیکھا جنہوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور انہیں سلام کیا، لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا اس گروہ میں سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں؟ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں! میں موجود ہوں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے «إِنَّا لِلّٰهِ» کہا اور فرمایا: میں ایسے گروہ کو سلام کر رہا ہوں جس میں آپ بھی موجود ہیں، پھر بھی سلام کا جواب نہیں دیتے، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے جواب دیا ہے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا اس طرح جواب دیا جاتا ہے کہ میری آواز تو آپ تک پہنچ رہی ہے لیکن آپ کی آواز مجھ تک نہیں پہنچ رہی۔ طلحہ! میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ”کسی مسلمان کا خون بہانا - ان تین وجوہات کے علاوہ - کسی وجہ سے بھی جائز نہیں، یا تو وہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہوجائے، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کا ارتکاب کرے، یا کسی کو قتل کرے اور بدلے میں اسے قتل کر دیا جائے“؟ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان کی تصدیق کی، جس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: واللہ! میں نے اللہ کو جب سے پہچانا ہے کبھی اس کا انکار نہیں کیا، اسی طرح میں نے زمانہ جاہلیت یا اسلام میں کبھی بدکاری نہیں کی، میں نے اس کام کو جاہلیت میں طبعی ناپسندیدگی کی وجہ سے چھوڑ رکھا تھا، اور اسلام میں اپنی عفت کی حفاظت کے لئے اس سے اپنا دامن بچائے رکھا، نیز میں نے کسی انسان کو بھی قتل نہیں کیا جس کے بدلے میں مجھے قتل کرنا حلال ہو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الحارث ضعيف، و محمد بن عبد الرحمٰن ضعيف جداً