كتاب الفضائل والشمائل كتاب الفضائل والشمائل کھانے کے مشکوک ہونے کا انکشاف
عاصم بن کلیب اپنے والد سے اور وہ انصار میں سے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: ہم ایک جنازہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک قبر پر گورکن کو ہدایات دیتے ہوئے سنا: ”اس کے پاؤں کی جانب سے کھلی کرو، اس کے سر کی جانب سے کھلی کرو۔ “ جب آپ واپس آئے تو اس (میت) کی عورت کی طرف سے دعوت کا پیغام دینے والا آپ کو ملا تو آپ نے دعوت قبول فرمائی اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے، کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا، پھر لوگوں نے (ہاتھ) بڑھایا، انہوں نے کھانا کھایا، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنے منہ میں لقمہ چباتے ہوئے فرمایا: ”میں ایک ایسی بکری کا گوشت پاتا ہوں جو اپنے مالک کی اجازت کے بغیر حاصل کی گئی ہے۔ “ اس عورت نے اپنے وضاحتی پیغام میں عرض کیا، اللہ کے رسول! میں نے نقیع کی طرف، جو کہ بکریوں کی خرید و فروخت کا مرکز ہے، آدمی بھیجا تھا تا کہ وہ میرے لیے ایک بکری خرید لائے، لیکن وہاں نہ ملی تو میں نے اپنے پڑوسی کی طرف بھیجا، اس نے ایک بکری خریدی ہوئی تھی، کہ وہ اس کی قیمت کے عوض اسے میری طرف بھیج دے، لیکن وہ (پڑوسی) نہ ملا تو میں نے اس عورت کی طرف پیغام بھیجا تو اس نے اسے میری طرف بھیج دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کھانا قیدیوں کو کھلا دو۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد و البیھقی فی دلائل النبوۃ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده صحيح، رواه أبو داود (3332) [و عنه] والبيھقي في دلائل النبوة (6/ 310) ٭ قوله ’’داعي امرأته‘‘ خطأ من الناسخ أو غيره، والصواب: ’’داعي امرأة‘‘ کما في سنن أبي داود وغيره و لو صح فمعناه ’’أي داعي امرأة الحافر‘‘ و لا يدل ھذا اللفظ إلي ما ذھب إليه البريلوية و من وافقھم بأن المراد منه ’’داعي امرأة الميت‘‘ و لم يأتوا بأي دليل علي تحريفھم ھذا.!» |