وعن عائشة انها قالت: هل اتى عليك يوم كان اشد من يوم احد؟ فقال: لقد لقيت من قومك فكان اشد ما لقيت منهم يوم العقبة إذ عرضت نفسي على ابن عبد يا ليل بن كلال فلم يجبني إلى ما اردت فانطلقت-وانا مهموم-على وجهي فلم افق إلا في قرن الثعالب فرفعت راسي فإذا انا بسحابة قد اظلتني فنظرت فإذا فيها جبريل فناداني فقال: إن الله قد سمع قول قومك وما ردوا عليك وقد بعث إليك ملك الجبال لتامره بما شئت فيهم. قال: فناداني ملك الجبال فسلم علي ثم قال: يا محمد إن الله قد سمع قول قومك وانا ملك الجبال وقد بعثني ربك إليك لتامرني بامرك إن شئت اطبق عليهم الاخشبين فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بل ارجو ان يخرج الله من اصلابهم من يعبد الله وحده ولا يشرك به شيئا» . متفق عليه وَعَن عَائِشَة أَنَّهَا قَالَت: هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ؟ فَقَالَ: لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ فَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ إِذْ عرضتُ نَفسِي على ابْن عبد يَا لِيل بْنِ كُلَالٍ فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ فَانْطَلَقْتُ-وَأَنا مهموم-على وَجْهي فَلم أفق إِلَّا فِي قرن الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ فَنَادَانِي فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ. قَالَ: فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ وَأَنَا مَلَكُ الْجِبَالِ وَقَدْ بَعَثَنِي رَبُّكَ إِلَيْكَ لِتَأْمُرَنِي بِأَمْرك إِن شِئْت أطبق عَلَيْهِم الأخشبين فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ وَلَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئا» . مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تمہاری قوم کی طرف سے بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن عقبہ کے دن مجھے ان کی طرف سے بہت تکلیف پہنچی ہے، جب میں نے ابن عبد یا لیل بن کلال پر دعوت پیش کی اور اس نے میری دعوت قبول نہ کی، میں حیران و پریشان واپس چل پڑا، مجھے معلوم نہ تھا کہ میں کس سمت چل رہا ہوں، قرن ثعالب پر پہنچ کر مجھے کچھ پتہ چلا، میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے، اس میں جبرائیل ؑ ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی، اور کہا کہ اللہ نے آپ کی قوم کی بات اور ان کا جواب سن لیا ہے، اور اس نے پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی طرف بھیجا ہے تا کہ آپ ان کے متعلق جو چاہیں حکم فرمائیں۔ “ فرمایا: ”پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی، اس نے مجھے سلام کہہ کر عرض کیا، محمد! اللہ نے آپ کی قوم کی بات سن لی ہے، اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں، آپ کے رب نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے تا کہ آپ جو چاہیں مجھے حکم فرمائیں، اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ لا کر ان پر ملا دوں۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کے صلب سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3231) و مسلم (111/ 1795)»