وعن ابي سعيد الخدري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن مما اخاف عليكم من بعدي ما يفتح عليكم من زهرة الدنيا وزينتها» . فقال رجل: يا رسول الله او ياتي الخير بالشر؟ فسكت حتى ظننا انه ينزل عليه قال: فمسح عنه الرحضاء وقال: «اين السائل؟» . وكانه حمده فقال: «إنه لا ياتي الخير بالشر وإن مما ينبت الربيع ما يقتل حبطا او يلم إلا آكلة الخضر اكلت حتى امتدت خاصرتاها استقبلت الشمس فثلطت وبالت ثم عادت فاكلت. وإن هذا المال خضرة حلوة فمن اخذه بحقه ووضعه في حقه فنعم المعونة هو ومن اخذه بغير حقه كان كالذي ياكل ولا يشبع ويكون شهيدا عليه يوم القيامة» . متفق عليه وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي مَا يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا» . فَقَالَ رجلٌ: يَا رَسُول الله أوَ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ يُنَزَّلُ عَلَيْهِ قَالَ: فَمَسَحَ عَنْهُ الرُّحَضَاءَ وَقَالَ: «أَيْنَ السَّائِلُ؟» . وَكَأَنَّهُ حَمِدَهُ فَقَالَ: «إِنَّهُ لَا يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ مَا يَقْتُلُ حَبَطًا أَوْ يُلِمُّ إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ أكلت حَتَّى امتدت خاصرتاها اسْتقْبلت الشَّمْسِ فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ ثُمَّ عَادَتْ فَأَكَلَتْ. وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ فَنِعْمَ الْمَعُونَةُ هُوَ وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ وَيَكُونُ شَهِيدًا عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اپنے بعد تمہارے متعلق جس چیز کا اندیشہ ہے وہ یہ ہے کہ تم پر دنیا کی رونق اور اس کی زینت کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔ “ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا خیر، برائی کو ساتھ لائے گی؟ آپ خاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ پر وحی اتاری جا رہی ہے، راوی بیان کرتے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے (چہرے مبارک) سے پسینہ صاف کیا، اور فرمایا: ”وہ سائل کہاں ہے؟“ گویا آپ نے اس کی تعریف کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”خیر، شر کو ساتھ نہیں لائے گی، بے شک موسم ربیع جو چارہ اگاتا ہے، اس سے وہ بعض چارہ جانور کو مار ڈالتا ہے، اپھارہ کر دیتا ہے یا ہلاکت کے قریب کر دیتا ہے، البتہ سبز گھاس کھانے والا جانور کھاتا ہے حتیٰ کہ اس کے کوکھ نکل آتے ہیں، وہ سورج کی طرف رخ کر کے جگالی کرتا ہے، گوبر کرتا ہے اور پیشاب کرتا ہے، اور وہ دوبارہ (چرنے) چلا جاتا ہے اور دوبارہ (سبز گھاس) کھاتا ہے، یہ مال سرسبز و شاداب، شیریں ہے جس نے اسے اپنی ضرورت کے مطابق لیا اور اسے اس کے حق کے مطابق خرچ کیا تو وہ بہترین مددگار ہے، اور جس نے اسے اپنی ضرورت کے بغیر حاصل کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اور وہ (مال) روز قیامت اس کے خلاف گواہی دے گا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1465) و مسلم (123/ 1052)»