من النذور و الايمان نذر اور قسم کے مسائل 3. باب لاَ نَذْرَ في مَعْصِيَةِ اللَّهِ: اللہ کی معصیت میں کوئی نذر (صحیح) نہیں
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گناه و معصیت کی نذر کو پورا نہ کرنا چاہیے اور نہ اس نذر کو پورا کرے جس کا ابنِ آدم کو اختیار (یعنی قدرت) نہیں ہوتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2382]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1641]، [أبوداؤد 3316]، [نسائي 3860]، [ابن ماجه 2124]، [ابن حبان 4391]، [الحميدي 851] وضاحت:
(تشریح حدیث 2373) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گناہ کی بات میں نذر نہیں ہے، جیسے کوئی اپنے بچے کو ذبح کرنے یا عید کے دن روزہ رکھنے کی نذر مانے تو ایسی نذر کو پورا کرنا واجب نہیں، اور اہلِ حدیث و حنفیہ کے نزدیک نذرِ معصیت کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے، کیونکہ مسلم شریف کی روایت میں وضاحت ہے کہ جو شخص کسی گناہ کی نذر مانے اس کا کفارہ، قسم کا کفارہ ہے۔ شافعیہ کے نزدیک ایسی نذر میں کفارہ نہیں ہے، اور صحیح پہلا قول ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی ہو اسے چاہیے کہ الله کی اطاعت کرے اور جس نے گناہ کرنے کی نذر مانی ہو پس وہ گناہ کا کام نہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2383]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6700]، [أبوداؤد 3289]، [ترمذي 1526]، [نسائي 3816]، [ابن ماجه 2126]، [أبويعلی 4863]، [ابن حبان 4387] وضاحت:
(تشریح حدیث 2374) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں نذر مانے یعنی نماز، روزہ، حج، عمره، جہاد وغیرہ کی تو وہ اس نذر کو پورا کرے، اور جو الله کی نافرمانی کی نذر مانے تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے، یعنی یہ کہے کہ نماز نہیں پڑھوں گا، یا فرض روزہ نہیں رکھوں گا وغیرہ، تو ایسی صورت میں اس نذر کو پورا کرنا ضروری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ضروری ہے، اور اپنی نذر کا کفارہ دے جیسا کہ اوپر تفصیل گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|