من النذور و الايمان نذر اور قسم کے مسائل 4. باب مَنْ نَذَرَ أَنْ يُصَلِّيَ في بَيْتِ الْمَقْدِسِ أَيُجْزِئُهُ أَنْ يُصَلِّيَ بِمَكَّةَ: جو شخص بیت المقدس میں نماز کی نذر مانے کیا بیت اللہ میں اس کا نماز پڑھنا کافی ہو گا؟
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر الله تعالیٰ آپ کو مکہ کی فتح نصیب کرے تو میں بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہیں (کعبہ میں) نماز پڑھ لو۔“ اس نے تین بار اپنے سوال کو دہرایا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب تمہاری مرضی ہے“ (یعنی تم کو اختیار ہے کہ بیت المقدس جا کر وہاں نماز پڑھو اور اپنی نذر کو پورا کرو)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2384]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3305]، [أبويعلی 2116]، [ابن الجارود 945]، [الحاكم 304/4]، [البيهقي فى المعرفة 19707] وضاحت:
(تشریح حدیث 2375) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھنے کی کوئی منّت یا نذر مانے تو وہ بیت اللہ شریف میں نماز پڑھ لے، اس کی منّت و نذر پوری ہو جائے گی، کیونکہ بیت اللہ الحرام بیت المقدس سے افضل ہے اور بیت اللہ میں نماز کا ثواب بیت المقدس میں نماز سے بہت زیادہ ہے، اس شخص نے جب بار بار اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے لئے خود تکلیف چاہتے ہو تو جا ؤ وہیں جا کر نذر پوری کرو اور بیت المقدس میں نماز پڑھو۔ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «اَلدِّيْنُ يُسْرٌ وَلَنْ يُشَّادَّ الدِّيْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ.» یعنی: دین آسان ہے اور جو کوئی بھی دین میں (اپنے لئے) سختی کرے گا تو دین ہی غالب آئے گا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|