من النذور و الايمان نذر اور قسم کے مسائل 9. باب مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْراً مِنْهَا: کوئی آدمی قسم کھائے اور پھر وہی کام اسے بہتر لگے تو کیا کرے؟
عبداللہ بن عمرو نے معرکہ جماجم کے دوران حدیث بیان کرتے ہوئے کہا: ایک آدمی نے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مدد مانگی تو انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ اس کو کچھ نہیں دیں گے، پھر کہا: کاش میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنا ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: ”کوئی آدمی قسم کھا لے کسی چیز پر پھر اس کے غیر میں بھلائی سمجھے تو پہلے جو کام بہتر ہے اس کو کرے پھر اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔“
تخریج الحدیث: «الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2390]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1651]، [نسائي 3794]، [ابن حبان 4346]، [بخاري فى الكبير 151/5] وضاحت:
(تشریح حدیث 2381) یعنی قسم کھائی کہ: اللہ کی قسم! اس شخص کی مدد نہ کرونگا، پھر خیال آیا کہ مدد کرنا اچھا ہے، تو اس آدمی کی پہلے مدد کرے یعنی قسم توڑ دے اور پھر اس قسم کا کفارہ ادا کرے۔ یعنی پہلے قسم توڑ دے پھر کفارہ دے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث صحيح
سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! حکومت (امیری یا گورنری) طلب نہ کرنا کیونکہ اگر تم کو مانگنے پر امیری ملی تو تم اس کے حوالے کر دیئے جاؤ گے اور اگر تم کو بنا مانگے امیری ملی تو اس میں (الله کی طرف سے) تمہاری مدد کی جائے گی، اور اگر تم کسی بات پر قسم کھا لو اور پھر اسکے سوا دوسری چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دو پھر وہ کام کرو جس میں بھلائی ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري في الأحكام، [مكتبه الشامله نمبر: 2391]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7146، 7147]، [مسلم 1652]، [أبوداؤد 3277]، [ترمذي 1529]، [نسائي 3792]، [ابن الجارود 929] و [ابن حبان 4248] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأخرجه البخاري في الأحكام
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «الحديث متفق عليه وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2392]»
ترجمہ و تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 2382 سے 2384) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بھی عہدے کے لئے کوشش کرنا یا اسے طلب کرنا درست نہیں، اور اگر بنا مانگے اور کنونس کے بغیر کوئی عہدہ مل جائے تو پھر الله تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم کھانے کے بعد کوئی چیز اچھی معلوم ہو تو قسم توڑ دینی چاہئے اور اس کا کفارہ ادا کر دینا چاہئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں قول و فعل دونوں مروی ہیں۔ پہلی حدیث میں کفارہ بعد میں ادا کرنے کا حکم ہے، اور دوسری حدیث میں ہے کہ پہلے کفارہ ادا کرے پھر وہ بھلائی کا کام کرے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ نہیں، لیکن یہ حدیث ان کے مخالف ہے، گرچہ بخاری میں ایسے ہی ہے کہ کام کرے پھر کفارہ دے، لیکن سند سے امام دارمی رحمہ اللہ کی روایت کی تائید ہوتی ہے، اس لئے پہلے یا بعد میں کبھی بھی کفارہ ادا کرنا جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ قسم کا کفارہ وہی ہے جو قرآن پاک میں مذکور ہے: « ﴿فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ﴾ [المائده: 89] » دس مسکین کو کھانا کھلانا، یا لباس دینا، یا غلام آزاد کرنا، اگر یہ نہ ہو سکے تو تین دن کے روزے رکھنا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث متفق عليه وهو مكرر سابقه
|