من النذور و الايمان نذر اور قسم کے مسائل 1. باب الْوَفَاءِ بِالنَّذْرِ: نذر پوری کرنے کا بیان
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نذر مانی کہ وہ حج کرے گی لیکن اس کا انتقال ہو گیا، تو ان کا بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس بارے میں دریافت کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟“ انہوں نے عرض کیا: ہاں ضرور ادا کرتا، فرمایا: ”اس نذر کو پورا کرو، یہ نذر وفا کی زیادہ مستحق ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2377]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6699]، [مسلم 1655] وضاحت:
(تشریح حدیث 2368) بخاری شریف اور سنن دارمی کے مخطوط میں ہے: «فَاقْضِ اللّٰهَ فَاللّٰهُ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ، أَوْ فَهُوَ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ.» یعنی پھر الله کا بھی حق ادا کرو کیونکہ وہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کا حق پورا ادا کیا جائے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے ایامِ جاہلیت میں ایک نذر مانی تھی پھر اسلام لے آیا؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اپنی نذر کو پورا کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2378]»
یہ حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6697]، [مسلم 1656]، [أبوداؤد 3325]، [ترمذي 1539]، [نسائي 3829]، [ابن ماجه 1772، 2129] وضاحت:
(تشریح حدیث 2369) نذر: غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کر لینے کو کہتے ہیں، اور ایمان یمین کی جمع ہے جس کے معنی قسم کے ہیں، نذر کی مثال جیسے کوئی کہے یہ لڑکا ڈاکٹر بن گیا تو حج کروں گا، یا میرے کام میں نفع ہوا تو صدقہ کروں گا یا روزے رکھوں گا، اس طرح کی جو بھی نذر ہو اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نہ ہو تو اسے پورا کرنا ضروری ہے جیسا کہ اس باب کی حدیثوں سے واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنتی لوگوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا: « ﴿يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ .....﴾ [الإنسان: 7] » کہ جو لوگ اپنی نذر کو پورا کرتے ہیں، نیز فرمانِ باری تعالیٰ: « ﴿وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ .....﴾ [الحج: 29] » واضح رہے کہ نذر ماننے سے کسی کام کا ہونے یا نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا، جو الله تعالیٰ نے مقدر فرمایا ہے وہ تو ہو کر رہتا ہے، اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ نذر سے صرف اتنا ہوتا ہے کہ بخیل کنجوس آدمی کے ہاتھ سے مال نکال لیتی ہے، کیونکہ بخیل پر جب کوئی آفت آتی ہے تب ہی خرچ کرتا ہے۔ مزید تفصیل حدیث رقم (2377) پر آ رہی ہے۔ مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر کسی نے اسلام لانے سے پہلے کوئی نذر مانی ہے اور وہ اللہ کی اطاعت ہی میں ہے تو اس کو پورا کرنا واجب ہے۔ بعض علماء نے کہا: اسلام سے پہلے اس نذر کی کوئی شرعی حیثیت ہی نہیں پھر پورا کرنے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جو اپنی نذر پوری کرنے کے لئے کہا تو وہ استحباباً تھا۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
|