من النذور و الايمان نذر اور قسم کے مسائل 2. باب في كَفَّارَةِ النَّذْرِ: نذر کے کفارے کا بیان
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کی بہن نے نذر مانی کہ وہ حج کے لئے پیدل اور ننگے سر جائے گی، میں نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی بہن سے کہو سر ڈھانپ لے اور سوار ہو جائے اور تین دن کے روزے رکھے۔“ (یعنی نذر پوری نہ کرنے کا کفارہ دے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبيد الله بن زحر وأبو سعيد الرعيني هو: جعثل بن هاعان. والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2379]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1866]، [مسلم 1644]، [أبوداؤد 3299]، [ترمذي 1544]، [نسائي 3823]، [ابن ماجه 2134]، [أبويعلی 1753] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبيد الله بن زحر وأبو سعيد الرعيني هو: جعثل بن هاعان. والحديث متفق عليه
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کی بہن نے نذر مانی کہ بیت اللہ شریف پیدل چل کر جائے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ غنی ہے تمہاری بہن کی نذر سے، اس کو چاہیے کہ سوار ہو جائے اور کفارے میں ایک ہدی ذبح کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2380]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3295]، [أحمد 239/1]، [طبراني 308/11، 11828]، [ابن الجارود 936] وضاحت:
(تشریح احادیث 2370 سے 2372) اس حدیث کی رو سے اگر کسی نے بیت اللہ کی طرف پیدل ننگے پاؤں چل کر جانے کی یا عورت نے ننگے سر چلنے کی نذر مانی ہو تو ایسی نذر کا پورا کرنا ضروری اور لازمی نہیں، خواہ چل کر جانے سے عاجز بھی نہ ہو، لیکن اسے کفارہ یمین ادا کرنا ہوگا، پہلی حدیث میں تین روزے رکھنے کا حکم ہے اور دوسری حدیث میں ایک ہدی ذبح کرنے کا حکم ہے، لہٰذا معصیت میں یا عدم قدرت کی نذر میں نذر کو پورا کرنا ضروری نہیں اور کفارہ ادا کرنا واجب و ضروری ہے جو قسم کا کفارہ ہے، یہی زیادہ صحیح ہے، اور اگر وہ نذر حج سے متعلق ہے تو ہدی ذبح کرے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے صحابی کو اپنے دو بیٹوں کے درمیان پیدل چلتا پایا تو پوچھا کہ ”ان بزرگ کو کیا ہوا؟“ (جوتمہارا سہارا لے کر چلتے ہیں) اس کے بیٹوں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انہوں نے (حج کے لئے) پیدل جانے کی نذر مانی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بزرگ! سوار ہوجاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی ہے تم سے اور تمہاری نذر سے۔“ (یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت نہیں۔ بخاری شریف میں ہے: ”الله تعالیٰ اس سے بے پرواہ (غنی) ہے کہ یہ شخص اپنی جان کو عذاب میں ڈالے۔“)
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2381]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6701]، [مسلم 1643]، [أبوداؤد 3301]، [ابن ماجه 2135]، [أبويعلی 6354] وضاحت:
(تشریح حدیث 2372) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ انسان جس چیز کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کی نذر مانے تو اسے پورا کرنا ضروری نہیں، اس حدیث میں کفارے کا ذکر نہیں ہے لیکن اوپر دوسری احادیث میں صحیح سند سے کفارے کا ذکر آیا ہے، اس لئے کفارہ یمین دینا واجب ہے، مسلم اور ترمذی میں ہے کہ نذر کا کفار قسم کا کفارہ ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|