(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا يحيى بن ابي زائدة، عن داود، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "انطلقوا بماعز بن مالك، فارجموه". فانطلقنا به إلى بقيع الغرقد، فوالله ما اوثقناه ولا حفرنا له، ولكن قام فرميناه بالعظام والخزف والجندل.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "انْطَلِقُوا بِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، فَارْجُمُوهُ". فَانْطَلَقْنَا بِهِ إِلَى بَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَوَاللَّهِ مَا أَوْثَقْنَاهُ وَلَا حَفَرْنَا لَهُ، وَلَكِنْ قَامَ فَرَمَيْنَاهُ بِالْعِظَامِ وَالْخَزَفِ وَالْجَنْدَلِ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ماعز بن مالک کو لے جاؤ اور اسے رجم کردو“، چنانچہ ہم انہیں لے کر بقیع الغرقد کے پاس گئے اور قسم اللہ کی نہ ہم نے انہیں باندھا، نہ گڑھا کھودا، صرف وہ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان پر ہڈی، ٹھیکری اور پتھر پھینک کر مارے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2355) رجم کے وقت باندھنا کسی کے نزدیک ضروری نہیں، گڑھا کھودنے میں اختلاف ہے۔ امام مالک، ابوحنیفہ اور احمد رحمہم اللہ کے نزدیک مرد، عورت کسی کے لئے گڑھا نہیں کھودنا چاہیے، قتادہ، ابوثور، ابویوسف کے نزدیک دونوں کے لئے گڑھا کھودنا چاہیے اس کی دلیل آگے آتی ہے، اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک جس کا رجم شہادت سے ثابت ہو اس کے لئے گڑھا کھودیں اور جس کا اقرار سے ہو اس کے لئے نہ کھودیں، شافعیہ کے نزدیک مرد کے لئے نہ کھودیں لیکن عورت کے باب میں تین قول ہیں: ایک یہ کہ سینے تک گڑھا کھودنا مستحب ہے تاکہ اس کا ستر نہ کھلے، دوسرے نہ مستحب ہے نہ مکروہ بلکہ حاکم کی رائے پر منحصر ہے۔ تیسرے یہ کہ گواہی کی صورت میں وہ مستحب ہے تاکہ اس کو بھاگنے کا موقع نہ ملے، (نووی مختصراً)۔ اس حدیث سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے کہ کسی کے لئے گڑھا نہیں کھودنا، نیز یہ کہ مرد کو کھڑے کھڑے رجم کرنا اور عورت کو بٹھا کر رجم کرنا چاہیے تاکہ اس کی بے پردگی نہ ہو۔ واللہ اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2365]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1694]، [أبويعلی 1215]، [ابن حبان 4438]