حدثنا عياش بن الوليد، قال: حدثنا عبد الاعلى، قال: حدثنا سعيد، عن قتادة، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن الصامت قال: قلت لابي ذر: مررت بعبد الرحمن بن ام الحكم فسلمت، فما رد علي شيئا؟ فقال: يا ابن اخي، ما يكون عليك من ذلك؟ رد عليك من هو خير منه، ملك عن يمينه.حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قُلْتُ لأَبِي ذَرٍّ: مَرَرْتُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أُمِّ الْحَكَمِ فَسَلَّمْتُ، فَمَا رَدَّ عَلَيَّ شَيْئًا؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، مَا يَكُونُ عَلَيْكَ مِنْ ذَلِكَ؟ رَدَّ عَلَيْكَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ، مَلَكٌ عَنْ يَمِينِهِ.
سیدنا عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں عبدالرحمٰن بن ام الحکم کے پاس سے گزرا اور سلام کہا تو انہوں نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے فرمایا: میرے بھتیجے! تجھے رنجیده ہونے کی ضرورت نہیں۔ تجھے اس سے بہتر نے سلام کا جواب دیا ہے۔ یعنی اس کے دائیں جانب والے فرشتے نے۔
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد موقوفًا على أبى ذر: تفرد به المصنف»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوفًا على أبى ذر
حدثنا عمر بن حفص، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا الاعمش، قال: حدثنا زيد بن وهب، عن عبد الله قال: إن السلام اسم من اسماء الله، وضعه الله في الارض، فافشوه بينكم، إن الرجل إذا سلم على القوم فردوا عليه كانت له عليهم فضل درجة، لانه ذكرهم السلام، وإن لم يرد عليه رد عليه من هو خير منه واطيب.حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ: إِنَّ السَّلاَمَ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللهِ، وَضَعَهُ اللَّهُ فِي الأَرْضِ، فَأَفْشُوهُ بَيْنَكُمْ، إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا سَلَّمَ عَلَى الْقَوْمِ فَرَدُّوا عَلَيْهِ كَانَتْ لَهُ عَلَيْهِمْ فَضْلُ دَرَجَةٍ، لأَنَّهُ ذَكَّرَهُمُ السَّلاَمَ، وَإِنْ لَمْ يُرَدَّ عَلَيْهِ رَدَّ عَلَيْهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ وَأَطْيَبُ.
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ”السلام“ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جسے اللہ نے زمین میں رکھ دیا ہے، لہٰذا اسے آپس میں عام کرو۔ بے شک آدمی جب کسی قوم پر سلام کرتا، اور وہ اس کا جواب دیتے ہیں تو سلام کرنے والے کو ایک درجہ فضیلت ہوتی ہے، کیونکہ اس نے ان کو سلام یاد دلایا۔ اور اگر اسے جواب نہ ملے تو اس کو اس سے بہتر اور پاکیزہ مخلوق کی طرف سے جواب مل جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد موقوفًا و صح مرفوعًا: شعب الإيمان للبيهقى: 432/6، ح: 8782»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوفًا و صح مرفوعًا