فتنوں کا بیان ابن صیاد کے قصہ کے بارے میں۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حج یا عمرہ کو نکلے اور ہمارے ساتھ ابن صائد بھی تھا۔ ایک منزل میں ہم اترے، لوگ ادھر ادھر چلے گئے اور میں اور ابن صائد دونوں رہ گئے۔ مجھے اس وجہ سے اس سے سخت وحشت ہوئی کہ لوگ اس کے بارے میں جو کہا کرتے تھے (کہ دجال ہے) ابن صائد اپنا اسباب لے کر آیا اور میرے اسباب کے ساتھ رکھ دیا (مجھے اور زیادہ وحشت ہوئی) میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اگر تو اپنا اسباب اس درخت کے نیچے رکھے تو بہتر ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر ہمیں بکریاں دکھلائی دیں۔ ابن صائد گیا اور دودھ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ابوسعید! دودھ پی۔ میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اور دودھ گرم ہے اور دودھ نہ پینے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہ تھی کہ مجھے اس کے ہاتھ سے پینا برا معلوم ہوا۔ ابن صائد نے کہا کہ اے ابوسعید! میں نے قصد کیا ہے کہ ایک رسی لوں اور درخت میں لٹکا کر اپنے آپ کو پھانسی دے لوں ان باتوں کی وجہ سے جو لوگ میرے حق میں کہتے ہیں۔ اے ابوسعید! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اتنی کس سے پوشیدہ ہے جتنی تم انصار کے لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ کیا تم سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں جانتے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ دجال کافر ہو گا اور میں تو مسلمان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال لاولد ہو گا اور میری اولاد مدینہ میں موجود ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال مدینہ میں اور مکہ میں نہ جائے گا اور میں مدینہ سے آ رہا ہوں اور مکہ کو جا رہا ہوں؟ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (اس کی ایسی باتوں کی وجہ سے) قریب تھا کہ میں اس کا طرفدار بن جاؤں (اور لوگوں کا اس کے بارے میں کہنا غلط سمجھوں) کہ پھر کہنے لگا البتہ اللہ کی قسم! میں دجال کو پہچانتا ہوں اور اس کے پیدائش کا مقام جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اب وہ کہاں ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ خرابی ہو تیری سارا دن (یعنی یہ تو نے کیا کہا کہ پھر مجھے تیری نسبت شبہ ہو گیا)۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جنت کی مٹی کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفید خالص، مشک کی طرح خوشبودار۔
محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو (اس پر) قسم کھاتے ہوئے دیکھا کہ ابن صائد دجال ہے۔ میں نے کہا کہ تم اللہ کی قسم کھاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھاتے ہوئے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہ کیا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند لوگوں میں ابن صیاد کے پاس گئے حتیٰ کہ اسے بنی مغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اس کو خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ مارا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم امییّن کے رسول ہو (امی کہتے ہیں ان پڑھ اور بے تعلیم کو)۔ پھر ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا کچھ جواب نہ دیا؟ (اور اس سے مسلمان ہونے کی درخواست نہ کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مسلمان ہونے سے مایوس ہو گئے اور ایک روایت میں صاد مہملہ سے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لات سے مارا) اور فرمایا کہ میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟ وہ بولا کہ میرے پاس کبھی سچا آتا ہے اور کبھی جھوٹا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا کام گڑبڑ ہو گیا (یعنی مخلوط حق و باطل دونوں سے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تجھ سے پوچھنے کے لئے ایک بات دل میں چھپائی ہے۔ ابن صیاد نے کہا کہ وہ دخ (دھواں) ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذلیل ہو، تو اپنی قدر سے کہاں بڑھ سکتا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے چھوڑئیے میں اس کی گردن مارتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ وہی (یعنی دجال) ہے تو تو اس کو مار نہ سکے گا اور اگر یہ وہ (دجال) نہیں ہے تو تجھے اس کا مارنا بہتر نہیں ہے۔ سیدنا سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس باغ میں گئے جہاں ابن صیاد رہتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں گھسے تو کھجور کے درختوں کی آڑ میں چھپنے لگے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد کو دھوکہ دے کر اور اس کی کچھ باتیں سن سکیں۔ اس سے پہلے کہ ابن صیاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کو دیکھا کہ وہ ایک بچھونے پر لیٹا ہوا تھا اور کچھ نافہم باتیں گنگنا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں میں چھپ رہے تھے کہ اس کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اسے پکارا کہ اے صاف! (اور صاف ابن صیاد کا نام تھا)۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی ابن صیاد اٹھ کھڑا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ اس کو ایسا ہی رہنے دیتی تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا (تو ہم اس کی باتیں سنتے تو معلوم کرتے کہ وہ کاہن ہے یا ساحر)۔ سالم نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جیسے اس کو لائق ہے، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو، یہاں تک کہ نوح علیہ السلام نے بھی (جن کا دور بہت پہلے تھا) اپنی قوم کو اس سے ڈرایا۔ لیکن میں تم کو ایسی بات بتلائے دیتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتلائی، تم جان لو کہ وہ کانا ہو گا اور تمہارا اللہ برکت والا بلند، کانا نہیں ہے۔ (معاذاللہ کاناپن ایک عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک عیب سے پاک ہے) ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے عمر بن ثابت انصاری نے بیان کیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے بیان کیا کہ جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دجال سے ڈرایا تھا، یہ بھی فرمایا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں کافر لکھا ہو گا (یعنی حقیقتاً کا۔ ف۔ ر۔ یہ حروف لکھے ہوں گے یا اس کے چہرے سے کفر اور شرارت نمایاں ہو گی) جس کو ہر وہ شخص پڑھ لے گا جو اس کے کاموں کو برا جانے گا یا اس کو ہر ایک مومن پڑھ لے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہ جان رکھو کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے رب کو مرنے سے پہلے ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔
سیدنا نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ میں ابن صیاد سے دو بار ملا ہوں۔ ایک بار ملا تو میں نے لوگوں سے کہا کہ تم کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! تم نے مجھے جھوٹا کیا۔ تم میں سے بعض لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ نہیں مرے گا، یہاں تک کہ تم سب میں زیادہ مالدار اور صاحب اولاد ہو گا، تو وہ آج کے دن ایسا ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں پھر ابن صیاد نے ہم سے باتیں کیں۔ پھر میں ابن صیاد سے جدا ہوا۔ کہتے ہیں کہ جب دوبارہ ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تیری آنکھ کب سے ایسے ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے معلوم نہیں؟ وہ بولا کہ اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔ پھر ایسی آواز نکالی جیسے گدھا زور سے کرتا ہے۔ نافع نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ام المؤمنین (حفصہ رضی اللہ عنہا) کے پاس گئے اور ان سے یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن صیاد سے تیرا کیا کام تھا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اول چیز جو دجال کو لوگوں پر بھیجے گی، وہ اس کا غصہ ہے (یعنی غصہ اس کو نکالے گا)۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں خوب جانتا ہوں کہ دجال کے ساتھ کیا ہو گا؟ اس کے ساتھ بہتی ہوئی دو نہریں ہوں گی، ایک تو دیکھنے میں سفید پانی معلوم ہو گی اور دوسری دیکھنے میں بھڑکتی ہوئی آگ معلوم ہو گی۔ پھر جو کوئی یہ موقع پائے، وہ اس نہر میں چلا جائے جو دیکھنے میں آگ معلوم ہوتی ہے اور اپنی آنکھ بند کر لے اور سر جھکا کر اس میں سے پئے، وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور دجال کی ایک آنکھ بالکل چٹ ہو گی اس پر ایک موٹی پھلی ہو گی اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں کافر لکھا ہو گا جس کو ہر مومن پڑھ لے گا خواہ وہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال بائیں آنکھ کا کانا ہو گا، گھنے بالوں والا ہو گا۔ اس کے ساتھ باغ ہو گا اور آگ ہو گی۔ پس اس کی آگ تو باغ ہے اور اس کا باغ آگ ہے۔ (علماء نے کہا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لئے ایک آزمائش ہے تاکہ حق کو حق کر دے اور جھوٹ کو جھوٹ پھر اس کو رسوا کرے اور لوگوں میں اس کی عاجزی ظاہر کرے)۔
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا (یعنی کبھی اس کی تحقیر کی اور کبھی اس کے فتنہ کو بڑا کہا یا کبھی بلند آواز سے گفتگو کی اور کبھی پست آواز سے)، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ دجال کھجور کے درختوں کے جھنڈ میں ہے۔ پھر جب شام کے وقت ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا (یعنی ڈر اور خوف)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہو گیا کہ دجال ان کھجور کے درختوں میں موجود ہے (یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دجال کے سوا اور باتوں کا تم پر خوف زیادہ ہے (یعنی فتنوں کا اور آپس کی لڑائیوں کا)، اگر دجال نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود ہوا تو تم سے پہلے میں اس کا مقابل ہوں گا (اس سے لڑائی کروں گا) اور تمہیں اس کے شر سے بچاؤں گا اور اگر وہ نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود نہ ہوا تو ہر مرد (مسلمان) اپنی طرف سے اس سے مقابلہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ اور نگہبان ہو گا۔ البتہ دجال تو جوان، گھونگھریالے بالوں والا ہے، اس کی آنکھ ابھری ہوئی ہے گویا کہ میں اس کی مشابہت عبدالعزیٰ بن قطن کے ساتھ دیتا ہوں۔ پس تم میں سے جو شخص دجال کو پائے، اس کو چاہئے کہ سورۃ الکہف کی شروع کی آیتیں اس پر پڑھے۔ یقیناً وہ شام اور عراق کے درمیان کی راہ سے نکلے گا تو اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ فساد پھیلائے گا۔ اے اللہ کے بندو! ایمان پر قائم رہنا۔ صحابہ بولے کہ یا رسول اللہ! وہ زمین پر کتنی مدت رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس دن تک، ان میں سے ایک دن ایک سال کے برابر ہو گا، ایک دن ایک مہینے کے برابر، ایک دن ایک ہفتہ کے برابر اور باقی دن جیسے یہ تمہارے دن ہیں (تو ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے اور چودہ دن تک رہے گا)۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جو دن سال بھر کے برابر ہو گا، اس دن ہمیں ایک ہی دن کی نمازیں کفایت کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، تم اس دن میں (سال کی نمازوں کا)۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کی چال زمین میں کیسی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بادل کی طرح جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے۔ پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور ان کو دعوت دے گا، وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی بات مانیں گے۔ پس وہ آسمان کو حکم کرے گا تو وہ پانی برسائے گا اور زمین کو حکم کرے گا تو وہ گھاس اور اناج اگا دے گی۔ شام کو ان کے جانور آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے زیادہ لمبے ہوں گے، تھن کشادہ ہوں گے اور کوکھیں تنی ہوئی (یعنی خوب موٹی ہو کر)۔ پھر دجال دوسری قوم کے پاس آئے گا۔ ان کو بھی دعوت دے گا، لیکن وہ اس کی بات کو نہ مانیں گے۔ تو ان کی طرف سے ہٹ جائے گا اور ان پر قحط سالی اور خشکی ہو گی۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے مالوں سے کچھ نہ رہے گا۔ اور دجال ویران زمین پر نکلے گا تو اس سے کہے گا کہ اے زمین! اپنے خزانے نکال، تو وہاں کے مال اور خزانے نکل کر اس کے پاس ایسے جمع ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں سردار مکھی کے گرد ہجوم کرتی ہیں۔ پھر دجال ایک جوان مرد کو بلائے گا اور اس کو تلوار مار کر دو ٹکڑے کر ڈالے گا جیسے نشانہ دو ٹوک ہو جاتا ہے، پھر اس کو زندہ کر کے پکارے گا، پس وہ جوان دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا سامنے آئے گا۔ سو دجال اسی حال میں ہو گا کہ اچانک اللہ تعالیٰ سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف سفید مینار کے پاس اتریں گے، وہ زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے ہوں گے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے۔ جب عیسیٰ علیہ السلام اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی۔ جس کافر تک عیسیٰ علیہ السلام کے دم کی خوشبو پہنچے گی، وہ مر جائے گا اور ان کے دم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ اس کو باب لد (نامی پہاڑ جو کہ شام میں ہے) پر موجود پا کر اس کو قتل کر دیں گے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کے پاس وہ لوگ آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے بچایا ہو گا۔ پس وہ شفقت سے ان کے چہروں کو سہلائیں گے اور ان کو ان درجوں کی خبر دیں گے جو جنت میں ان کے رکھے ہیں۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں، تم میرے مسلمان بندوں کو طور (پہاڑ) کی طرف پناہ میں لے جاؤ اور اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر ایک اونچان سے نکل پڑیں گے۔ ان کے پہلے لوگ طبرستان کے دریا پر گزریں گے اور اس کا سارا پانی پی لیں گے۔ پھر ان میں سے پچھلے لوگ جب وہاں آئیں گے تو کہیں گے کہ کبھی اس دریا میں پانی بھی تھا۔ (پھر چلیں گے یہاں تک کہ اس پہاڑ تک پہنچیں گے جہاں درختوں کی کثرت ہے یعنی بیت المقدس کا پہاڑ تو وہ کہیں گے کہ البتہ ہم زمین والوں کو تو قتل کر چکے، اب آؤ آسمان والوں کو قتل کریں تو اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون میں بھر کر لوٹا دے گا، وہ یہ سمجھیں گے کہ آسمان کے لوگ بھی مارے گئے یہ مضمون اس روایت میں نہیں ہے بلکہ اس کے بعد کی روایت سے لیا گیا ہے) اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے اصحاب بند رہیں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک بیل کا سر تمہاری آج کی سو اشرفی سے افضل ہو گا (یعنی کھانے کی نہایت تنگی ہو گی)۔ پھر اللہ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی دعا کریں گے، پس اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کے لوگوں پر عذاب بھیجے گا تو ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا تو صبح تک سب مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت برابر جگہ ان کی سڑاند اور گندگی سے خالی نہ پائیں گے (یعنی تمام زمین پر ان کی سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہوں گی) پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بڑے اونٹوں کی گردن کے برابر پرندے بھیجے گا، وہ ان کو اٹھا لے جائیں گے اور وہاں پھینک دیں گے جہاں اللہ کا حکم ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ ایسا پانی برسائے گا کہ پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل جما اور اپنی برکت کو پھیر دے اور اس دن ایک انار کو ایک گروہ کھائے گا اور اس کے چھلکے کو بنگلہ سا بنا کر اس کے سایہ میں بیٹھیں گے اور دودھ میں برکت ہو گی، یہاں تک کہ دودھ والی اونٹنی آدمیوں کے بڑے گروہ کو کفایت کرے گی اور دودھ والی گائے ایک برادری کے لوگوں کو کفایت کرے گی اور دودھ والی بکری ایک پورے خاندان کو کفایت کرے گی۔ پس لوگ اسی حالت میں ہوں گے کہ یکایک اللہ تعالیٰ ایک پاک ہوا بھیجے گا، وہ ان کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور اثر کر جائے گی تو ہر مومن اور مسلم کی روح کو قبض کرے گی اور برے بدذات لوگ باقی رہ جائیں گے، گدھوں کی طرح سرعام عورتوں سے جماع کریں گے اور ان پر قیامت قائم ہو گی۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے ذکر میں ایک لمبی حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی بیان کیا کہ اس پر مدینہ کی گھاٹی میں گھسنا حرام ہو گا اور وہ مدینہ کے قریب ایک پتھریلی زمین پر آئے گا۔ پھر اس کے پاس ایک شخص جائے گا جو سب لوگوں میں بہتر ہو گا، وہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کا ذکر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں کیا ہے۔ دجال لوگوں سے کہے گا کہ بھلا اگر میں اس کو مار ڈالوں، پھر زندہ کر دوں تو کیا تمہیں اس بارے میں کچھ شک رہے گا؟ وہ کہیں گے کہ نہیں۔ دجال اس شخص کو قتل کرے گا اور پھر اس کو زندہ کر دے گا۔ پس جب وہ اس کو زندہ کرے گا تو کہے گا کہ اللہ کی قسم! مجھے پہلے تیرے بارے میں اتنا یقین نہ تھا جتنا اب ہے۔ (یعنی اب تو یقین ہو گیا کہ تو دجال ہے) پھر دجال اس کو قتل کرنا چاہے گا لیکن قتل نہ کر سکے گا۔ راوی ابواسحٰق نے کہا کہ یہ آدمی خضر علیہ السلام ہیں۔ (لیکن یہ ثابت نہیں ہے بلکہ دلائل اس پر شاہد ہیں کہ خضر علیہ السلام وفات پا چکے ہیں)۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال نکلے گا اور مسلمانوں میں سے ایک شخص اس کی طرف چلے گا تو راستے میں اس کو دجال کے ہتھیار بند لوگ ملیں گے۔ وہ اس سے پوچھیں گے کہ تو کہاں جاتا ہے؟ وہ بولے گا کہ میں اسی شخص کے پاس جاتا ہوں جو نکلا ہے۔ وہ کہیں گے کہ تو کیا ہمارے مالک پر ایمان نہیں لایا؟ وہ کہے گا کہ ہمارا مالک چھپا نہیں ہے۔ دجال کے لوگ کہیں گے کہ اس کو مار ڈالو۔ پھر آپس میں کہیں گے کہ ہمارے مالک نے تو کسی کو مارنے سے منع کیا ہے جب تک اس کے سامنے نہ لے جائیں، پھر اس کو دجال کے پاس لے جائیں گے۔ جب وہ دجال کو دیکھے گا تو کہے گا کہ اے لوگو! یہ وہی دجال ہے جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ دجال اپنے لوگوں کو حکم دے گا تو اس کے سر اور پیٹھ اور پیٹ پر مارا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا کہ اس کو پکڑو اور اس کا سر پھوڑ دو۔ پھر دجال اس سے پوچھے گا کہ تو میرے اوپر (یعنی میری خدائی پر) یقین نہیں کرتا؟ وہ کہے گا کہ تو جھوٹا مسیح ہے۔ پھر دجال حکم دے گا تو وہ آرے سے سر سے لے کر دونوں پاؤں تک چیرا جائے گا، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو جائے گا۔ پھر دجال ان دونوں ٹکڑوں کے بیچ میں جائے گا اور کہے گا کہ اٹھ کھڑا ہو۔ وہ شخص (زندہ ہو کر سیدھا) اٹھ کر کھڑا ہو جائے گا۔ پھر اس سے پوچھے گا کہ اب تو میرے اوپر ایمان لایا؟ وہ کہے گا کہ مجھے تو اور زیادہ یقین ہوا کہ تو دجال ہے۔ پھر لوگوں سے کہے گا کہ اے لوگو! اب دجال میرے سوا کسی اور سے یہ کام نہ کر سکے گا (یعنی اب کسی کو جلا نہیں سکتا)۔ پھر دجال اس کو ذبح کرنے کے لئے پکڑے گا تو اس کے گلے سے لے کر ہنسلی تک تانبے کا بن جائے گا اور وہ اسے ذبح نہ کر سکے گا، پھر اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر پھینک دے گا۔ لوگ سمجھیں گے کہ اس کو آگ میں پھینک دیا حالانکہ وہ جنت میں ڈالا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص سب لوگوں میں اللہ رب العالمین کے نزدیک بڑا شہید ہے۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دجال کے بارے میں اتنا نہیں پوچھا جتنا میں نے پوچھا۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کیوں فکر کرتا ہے؟ دجال تجھے نقصان نہ پہنچائے گا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا ہو گا اور نہریں ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہو گا، لیکن اللہ تعالیٰ پر تو اس سے زیادہ آسان ہے (اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بھی زیادہ اختیار دے سکتا ہے اس پر کیا مشکل ہے، یعنی جو اس کے پاس ہو گا وہ اس سے مومنوں کو گمراہ نہ کر سکے گا)
سیدنا نعمان بن سالم کہتے ہیں کہ میں نے یعقوب بن عاصم بن عروہ بن مسعود ثقفی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے سنا، اور ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یہ حدیث کیا ہے جو تم بیان کرتے ہو کہ قیامت اتنی مدت میں ہو گی۔ انہوں نے (تعجب سے) کہا کہ سبحان اللہ یا لا الٰہ الا اللہ یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا اور پھر کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ اب میں کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کروں (کیونکہ لوگ کچھ کہتے ہیں اور مجھے بدنام کرتے ہیں)۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ تم تھوڑے دنوں کے بعد ایک بڑا حادثہ دیکھو گے جو گھر کو جلائے گا اور وہ ضرور ہو گا۔ پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا۔ میں نہیں جانتا کہ چالیس دن فرمایا یا چالیس مہینے یا چالیس برس۔ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا اور ان کی شکل و صورت عروہ بن مسعود کی سی ہے۔ وہ دجال کو ڈھونڈھیں گے اور اس کو قتل کریں گے پھر سات برس تک لوگ ایسے رہیں گے کہ دو آدمیوں میں کوئی دشمنی نہ ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا تو زمین پر کوئی ایسا نہ رہے گا جس کے دل میں رتی برابر ایمان یا بھلائی ہو مگر یہ ہوا اس کی جان نکال لے گی، یہاں تک کہ اگر کوئی تم میں سے پہاڑ کے کلیجہ میں گھس جائے تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچ کر اس کی جان نکال لے گی۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ پھر برے لوگ دنیا میں رہ جائیں گے، چڑیوں کی طرح جلد باز یا بے عقل اور درندوں کی طرح ان کے اخلاق ہوں گے۔ نہ وہ اچھی بات کو اچھا سمجھیں گے اور نہ بری بات کو برا۔ پھر شیطان ایک صورت بنا کر ان کے پاس آئے گا اور کہے گا کہ کیا تم میری بات کو قبول نہیں کرتے؟ وہ کہیں گے کہ پھر تو ہمیں کیا حکم دیتا ہے؟ شیطان کہے گا کہ بت پرستی کرو۔ وہ بت پوجیں گے اور اس کے باوجود ان کی روزی کشادہ ہو گی اور مزے سے زندگی گزاریں گے۔ پھر صور پھونکا جائے گا اور اس کو کوئی نہ سنے گا مگر ایک طرف سے گردن جھکائے گا اور دوسری طرف سے اٹھے گا (یعنی بیہوش ہو کر گر پڑے گا) اور سب سے پہلے صور کو وہ سنے گا جو اپنے اونٹوں کے حوض کو لیپ رہا ہو گا۔ وہ بیہوش ہو جائے گا اور دوسرے لوگ بھی بیہوش ہو جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ پانی برسائے گا جو نطفہ کی طرح ہو گا، اس سے لوگوں کے بدن اگ آئیں گے۔ پھر صور پھونکا جائے گا تو سب لوگ کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔ پھر پکارا جائے گا کہ اے لوگو! اپنے مالک کے پاس آؤ ”اور ان کو کھڑا کرو، بیشک ان سے سوال ہو گا“ (الصافات: 24)۔ پھر کہا جائے گا کہ ایک لشکر کو دوزخ کے لئے نکال لو۔ پوچھا جائے گا کہ کتنے لوگ؟ حکم ہو گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے (اور ہر ہزار میں سے ایک جنتی ہو گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وہ دن ہے جو بچوں کو (ہیت اور مصیبت سے یا درازی سے) بوڑھا کر دے گا اور یہی وہ دن ہے جب پنڈلی کھلے گی (یعنی سختی ہو گی یا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا جس سے مومن سجدے میں گر جائیں گے)۔
|