فتنوں کا بیان فتنے اور ان کی کیفیات کے متعلق۔
ابو ادریس خولانی کہتے ہیں کہ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں سب لوگوں سے زیادہ ہر فتنہ کو جانتا ہوں جو میرے درمیان اور قیامت کے درمیان ہونے والا ہے۔ اور یہ بات نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپا کر کوئی بات خاص مجھ سے بیان کی ہو جو اوروں سے نہ کی ہو، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں فتنوں کا بیان کیا جس میں میں بھی تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فتنوں کا شمار کرتے ہوئے فرمایا: تین ان میں سے ایسے ہیں جو قریب قریب کچھ نہ چھوڑیں گے اور ان میں سے بعض گرمی کی آندھیوں کی طرح ہیں، بعض ان میں چھوٹے ہیں اور بعض بڑے ہیں۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (اب) میرے سوا اس مجلس کے سب لوگ فوت ہو چکے ہیں۔ ایک میں باقی ہوں (اس وجہ سے اب مجھ سے زیادہ کوئی فتنوں کا جاننے والا باقی نہ رہا)۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ہم میں (وعظ سنانے کو) کھڑے ہوئے تو کوئی بات نہ چھوڑی جو اس وقت سے لے کر قیامت تک ہونے والی تھی مگر اس کو بیان کر دیا۔ پھر یاد رکھا جس نے رکھا اور بھول گیا جو بھول گیا۔ میرے ساتھی اس کو جانتے ہیں اور بعض بات ہوتی ہے جس کو میں بھول گیا تھا، پھر جب میں اس کو دیکھتا ہوں تو یاد آجاتی ہے جیسے آدمی دوسرے آدمی کی عدم موجودگی میں اس کا چہرہ یاد رکھتا ہے، پھر جب اس کو دیکھے تو پہچان لیتا ہے۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک بات بتا دی جو قیامت تک ہونے والی تھی اور کوئی بات ایسی نہ رہی جس کو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھا ہو، البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ مدینہ والوں کو مدینہ سے کون سی چیز نکالے گی۔
سیدنا ابوزید (یعنی عمرو بن اخطب) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر چڑھ کر ہمیں وعظ سنایا، یہاں تک کہ ظہر کا وقت آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور نماز پڑھی۔ پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں وعظ سنایا، یہاں تک کہ عصر کا وقت آ گیا۔ پھر اترے اور نماز پڑھی۔ پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں وعظ سنایا، یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔ پس جو کچھ ہو چکا ہے اور جو کچھ ہونے والا تھا، سب کی ہمیں خبر دے دی۔ اور ہم میں سب سے زیادہ وہ عالم ہے جس نے سب سے زیادہ ان باتوں کو یاد رکھا ہو۔
|