مختصر صحيح مسلم
فتنوں کا بیان
ابن صیاد کے قصہ کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 2044
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند لوگوں میں ابن صیاد کے پاس گئے حتیٰ کہ اسے بنی مغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اس کو خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ مارا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم امییّن کے رسول ہو (امی کہتے ہیں ان پڑھ اور بے تعلیم کو)۔ پھر ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا کچھ جواب نہ دیا؟ (اور اس سے مسلمان ہونے کی درخواست نہ کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مسلمان ہونے سے مایوس ہو گئے اور ایک روایت میں صاد مہملہ سے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لات سے مارا) اور فرمایا کہ میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟ وہ بولا کہ میرے پاس کبھی سچا آتا ہے اور کبھی جھوٹا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا کام گڑبڑ ہو گیا (یعنی مخلوط حق و باطل دونوں سے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تجھ سے پوچھنے کے لئے ایک بات دل میں چھپائی ہے۔ ابن صیاد نے کہا کہ وہ دخ (دھواں) ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذلیل ہو، تو اپنی قدر سے کہاں بڑھ سکتا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے چھوڑئیے میں اس کی گردن مارتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ وہی (یعنی دجال) ہے تو تو اس کو مار نہ سکے گا اور اگر یہ وہ (دجال) نہیں ہے تو تجھے اس کا مارنا بہتر نہیں ہے۔ سیدنا سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس باغ میں گئے جہاں ابن صیاد رہتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں گھسے تو کھجور کے درختوں کی آڑ میں چھپنے لگے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد کو دھوکہ دے کر اور اس کی کچھ باتیں سن سکیں۔ اس سے پہلے کہ ابن صیاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کو دیکھا کہ وہ ایک بچھونے پر لیٹا ہوا تھا اور کچھ نافہم باتیں گنگنا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں میں چھپ رہے تھے کہ اس کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اسے پکارا کہ اے صاف! (اور صاف ابن صیاد کا نام تھا)۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی ابن صیاد اٹھ کھڑا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ اس کو ایسا ہی رہنے دیتی تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا (تو ہم اس کی باتیں سنتے تو معلوم کرتے کہ وہ کاہن ہے یا ساحر)۔ سالم نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جیسے اس کو لائق ہے، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو، یہاں تک کہ نوح علیہ السلام نے بھی (جن کا دور بہت پہلے تھا) اپنی قوم کو اس سے ڈرایا۔ لیکن میں تم کو ایسی بات بتلائے دیتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتلائی، تم جان لو کہ وہ کانا ہو گا اور تمہارا اللہ برکت والا بلند، کانا نہیں ہے۔ (معاذاللہ کاناپن ایک عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک عیب سے پاک ہے) ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے عمر بن ثابت انصاری نے بیان کیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے بیان کیا کہ جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دجال سے ڈرایا تھا، یہ بھی فرمایا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں کافر لکھا ہو گا (یعنی حقیقتاً کا۔ ف۔ ر۔ یہ حروف لکھے ہوں گے یا اس کے چہرے سے کفر اور شرارت نمایاں ہو گی) جس کو ہر وہ شخص پڑھ لے گا جو اس کے کاموں کو برا جانے گا یا اس کو ہر ایک مومن پڑھ لے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہ جان رکھو کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے رب کو مرنے سے پہلے ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔