نکاح کے بیان میں निकाह के बारे में ”اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو“ (النساء: 23) کا بیان (اور فرمان رسول کہ) ”جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں وہی رشتے رضاعت سے حرام ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سید الشہداء سیدنا) حمزہ (رضی اللہ عنہ) کی بیٹی سے شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ دودھ کے رشتے سے میری بھتیجی ہے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کی آواز سنی جو ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں جانے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: ”یا رسول اللہ بیشک یہ (غیر) مرد آپ کے مکان میں جانا چاہتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جانتا ہوں کہ یہ فلاں شخص ہے جو حفصہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی چچا ہے“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ اگر فلاں شخص زندہ ہوتا جو کہ دودھ کے رشتہ سے میرا چچا تھا تو کیا میں اس کے سامنے نکلتی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! جو رشتے نسب سے حرام ہیں (وہ) دودھ پینے سے بھی حرام ہیں۔“
ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ میری بہن بنت ابوسفیان سے نکاح کر لیجئیے۔ آپ نے پوچھا: ”کیا تو یہ بات پسند کرتی ہے؟“ (کیا تجھے سوکن ناگوار نہیں گزرتی؟) میں نے عرض کی ”جی ہاں“ (لیکن) اب بھی تو آپ کی میں ہی اکیلی بیوی نہیں ہوں اور مجھے اپنی بہن کو اپنے ساتھ بھلائی میں شریک بنانا ناگوار نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے یہ جائز ہی نہیں ہے (کہ دو بہنیں ایک وقت نکاح میں رکھوں)۔“ میں نے کہا کہ ہم نے تو سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسلمہ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا ام سلمہ کی بیٹی سے؟ (میں نکاح کرنا چاہتا ہوں)۔“ میں نے کہا جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو اگر میری ربیبہ (پہلے خاوند سے بیوی کی بیٹی) نہ بھی ہوتی تب بھی حلال نہ ہوتی کیونکہ وہ دودھ کے رشتے میں میری بھتیجی ہے، مجھے اور ابوسلمہ (اس کے باپ) کو ثوبیہ رضی اللہ عنہا نے دودھ پلایا تھا (اے بی بی! تجھ کو لازم ہے کہ) میرے روبرو اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو پیش نہ کرو (مجھے حلال نہیں)۔“
|