الاداب والاستئذان آداب اور اجازت طلب کرنا अख़लाक़ और अनुमति मांगना اجازت لینے کا طریقہ “ अनुमति कैसे मांगी जाए ”
بنو عامر قبیلے کا ایک آدمی بیان کرتا ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا: میں اندر آ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خادمہ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: ”اس آدمی کا اجازت طلب کرنے کا انداز اچھا نہیں ہے، اس لیے اس کے پاس جا کر اسے بتلاؤ کہ یوں کہہ کر (اجازت طلب کیا کر): السلام علیکم، میں داخل ہو سکتا ہوں؟“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف فرما تھے کہ بنو عامر قبیلے کے ایک آدمی نے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا: میں اندر آ جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے خادم) سے فرمایا: ”اس شخص کے پاس جاؤ اور اسے اجازت طلب کرنے کا طریقہ سکھاؤ اور اسے بتلاؤ کہ ان الفاظ کے ساتھ اجازت طلب کرنی چاہیئے: السلام علیکم، کیا میں اندر آ جاؤں؟۔“ اس آدمی نے یہ ساری بات سن لی اور (عمل کرتے ہوئے) کہا: السلام علیکم، میں اندر آ سکتا ہوں؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی اور وہ اندر آ گیا۔
بنو عامر قبیلے کا ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں اندر آ جاؤں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لونڈی سے فرمایا: ”اس آدمی نے اچھے انداز میں اجازت طلب نہیں کی، لہٰذا جاؤ اور اسے کہو کہ یوں کہا کرو: السلام علیکم، میں اندر آ سکتا ہوں۔“ اس آدمی نے خود یہ بات سن لی اور لونڈی کے پہنچنے سے پہلے کہا: السلام علیکم، میں اندر آ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وعلیک ( اور تجھ پر بھی ہو)، آ جاؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور پوچھا: آپ کون سی چیز لے کر آئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے پاس خیر ہی لے کر آیا ہوں، میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور لات اور عزی (جیسے بتوں) کی عبادت ترک کر دو اور دن رات میں پانچ نمازیں پڑھو اور سال میں ماہ (رمضان) کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اور غنی لوگوں سے (زکوٰۃ کا) مال لے کر اسے فقراء میں تقسیم کر دو۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے خیر و بھلائی پر مشمتل باتیں سکھائی ہیں اور وہ بھی علم ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، پانچ چیزیں ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے: بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا اور جو ماں کے پیٹ میں ہے اسے وہی جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا ہے اور صحیح خبروں والا ہے۔“ (سورۃ لقمان: ۳۴)۔“
کلدہ بن خبل کہتے ہیں: صفوان بن امیہ نے مجھے دودھ، کھیس اور چھوٹے کھیرے دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی کے اوپر والے حصے میں تھے، میں نے سلام کہا اور اجازت طلب کئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس لوٹ جا اور (پہلے) اس طرح کہہ: السلام علیکم، کیا میں اندر آ جاؤں؟“۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو سلام سے ابتدا نہیں کرتا، اسے اجازت مت دو۔
ابوسعید وغیرہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں انصاریوں کی مجلس میں بیٹھا تھا، اچانک سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ، جو خوفزدہ اور سہمے ہوئے تھے، وہاں پہنچے اور کہا: میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جانے کے لیے تین دفعہ اجازت طلب کی، لیکن مجھے اجازت نہ دی گئی، اس لیے میں واپس چل دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا: تجھے کس چیز نے روک دیا ہے؟ میں نے کہا: میں نے تین دفعہ اجازت طلب کی، لیکن مجھے اجازت نہ دی گئی، اس لیے واپس جانے لگا، کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی ( کسی سے) تین دفعہ اجازت طلب کرے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بخدا! تجھے اس حدیث پر شاہد پیش کرنا پڑے گا، ( وگرنہ)۔ اب تم یہ بتاؤ کہ کیا کسی نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اس مجلس میں سے تیرے ساتھ وہی کھڑا ہو گا جو سب سے چھوٹا ہے۔ میں ( ابوسعید) سب سے چھوٹا تھا۔ میں ان کے ساتھ گیا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتلایا کہ میں نے بھی یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اور بلا اجازت آپ کے پاس چلا جاتا تھا۔ ایک دن میں آیا اور (حسب عادت) سیدھا اندر چلا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹا! پیچھے چلے جاؤ۔ نیا حکم نافذ ہو چکا ہے، (آئندہ) اجازت کے بغیر مجھ پر داخل نہ ہونا۔“
|