الاداب والاستئذان آداب اور اجازت طلب کرنا अख़लाक़ और अनुमति मांगना سلام کے آداب “ सलाम करने के नियम ”
سیدنا عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”سوار، پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھنے والے کو اور قلیل تعداد والے کثیر تعداد والوں کو سلام کہا کریں۔ جس نے سلام کا جواب دیا تو اسے ثواب ملے گا اور جس نے جواب نہ دیا وہ اجر سے محروم رہے گا۔“
سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے گا اور جماعت میں سے ایک آدمی کا سلام کرنا سب کو کفایت کر جائے گا۔“
سیدنا عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”سوار، پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور قلیل تعداد والے کثیر تعداد والوں کو سلام کریں۔ جس نے سلام کا جواب دیا اسے اجر ملے گا اور جس نے جواب نہ دیا اسے اجر نہیں ملے گا۔“
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھنے والے اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار، پیدل چلنے والوں کو، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ موقوفاً بیان کرتے ہیں: سوار پیدل چلنے والے پر، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے پر سلام کرے اور دو چلنے والوں میں سے جو سلام کرنے میں پہل کرے گا وہ افضل ہو گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھوٹا بڑے کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور قلیل تعداد والے کثیر تعداد والوں کو سلام کریں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو ملے تو اسے سلام کہے، اگر ان کے درمیان کوئی درخت یا دیوار یا پتھر حائل ہو جائے اور دوبارہ ملے تو پھر اسے سلام کہے۔“
ابو تمیمہ ہجیمی اپنی قوم کے ایک آدمی، جو صحابی تهے، سے روایت کرتے ہیں، وه کہتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا، لیکن کامیاب نہ ہو سکا، میں بیٹھ گیا، اچانک ایک جماعت پر میری نظر پڑی، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، لیکن میں تو آپ کو جانتا نہیں تھا اور آپ ان کے درمیان صلح کروا رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو کر چلے تو بعض لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل دیے، جب انہوں نے ”یا رسول اللہ“ کہ کر (آپ کو پکارا) تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہی اللہ کے رسول ہیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! علیک السلام (آپ پر سلامتی ہو)، اے اللہ کے رسول! آپ پر سلامتی ہو، اے اللہ کے رسول! آپ پر سلامتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علیک السلام کے الفاظ کے ذریعے مردوں کو سلام کہا جاتا ہے۔“ پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”جب کوئی آدمی اپنے بھائی کو ملے تو کہے: «السلام عليكم ورحمة الله وبركاته» “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا: ”اور تجھ پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو، اور تجھ پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو، اور تجھ پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کچھ لوگ کسی قوم کے پاس سے گزریں اور گزرنے والوں میں سے ایک سلام کہہ دے اور بیٹھنے والوں میں سے ایک جواب دے دے تو ان کی طرف سے بھی کفایت کرے گا اور ان کی طرف سے بھی۔“
|