الخلافة والبيعة والطاعة والامارة خلافت، بیعت، اطاعت اور امارت کا بیان ख़िलाफ़त, बैअत, आज्ञाकारी और शासन امارت بری چیز ہے، الا یہ کہ . . . “ शासन बुरी चीज़ है सिवाए इस के... ”
یزید بن شریک کہتے ہیں کہ ضحاک بن قیس نے اس زیبائش کا کپڑا دے کر مروان کے پاس بھیجا۔ مروان نے چوکیدار سے کہا: دیکھو، دروازے پر کون ہے؟ اس نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی اور کہا: ابوہریرہ! رسول اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث بیان کرو۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”عنقریب آدمی یہ تمنا کرے گا کہ اگر وہ ثریا ستارے سے گر پڑے (تو کوئی بات نہیں، لیکن کہیں) ایسا نہ ہو کہ اسے لوگوں کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا دیا جائے۔“
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہتے ہو تو میں تم پر امارت کی حقیقت واضح کر دیتا ہوں کہ یہ ہے کیا؟ سب سے پہلے ملامت ہوتی ہے، اس کے بعد ندامت ہوتی ہے اور آخر میں روز قیامت عذاب ہوتا ہے، مگر وہ جس نے عدل و انصا ف کیا، بھلا کون ہے جو اپنے قرابتداروں کے سا تھ انصاف والا معاملہ کر سکے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یقیناً حکومت اور امارت کی حرص کرو گے (لیکن یاد رکھو کہ) یہ قیامت والے دن ندامت اور حسرت (کا باعث) ہو گی، دودھ پلانے والی تو بڑی اچھی ہوتی ہے لیکن دودھ چھڑانے والی بڑی بری ہوتی ہے (یعنی امارت کے آغاز میں تو سکون ملتا ہے لیکن اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا)۔“
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی دس افراد کے معاملات کی ذمہ داری سنبھالتا ہے، وہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کے پاس اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن تک جکڑے ہوں گے۔ اس کی نیکی اس کو آزاد کرائے گی یا اس کی برائی اس کو ہلاک کر دے گی۔ (اس امارت) کی ابتدا میں ملامت، درمیان میں ندامت اور آخر میں یعنی قیامت کے روز رسوائی ہوتی ہے۔“
|