الحج والعمرة حج اور عمرہ हज और उमरा قریشیوں نے دور جاہلیت میں تعمیر کعبہ میں کیا کمی کوتا ہی کی؟ تعمیر کعبہ کے بارے میں نبوی اصلاحات، مصلحت سے پہلے مفسدت کو دور کرنا “ क़ुरैश ने कअबा को बनाने में क्या कमी की और क्यों ، रसूल अल्लाह ﷺ की कमी दूर करने के लिए कअबा को फिर से बनाने की इच्छा ، नेकी करने से पहले रुकावटें दूर करना ”
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! اگر تیری قوم کا عہد، زمانہ شرک کے قریب قریب نہ ہوتا اور میرے پاس کعبہ کی عمارت (کو مکمل کرنے کے) اخراجات بھی نہیں ہیں، تو میں کعبہ کے خزانے کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دیتا، کعبہ کی عمارت کو گرا دیتا، اس کو زمین کے ساتھ ملا دیتا، پھر ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر تعمیر کرتا، پھر اس کے دو دروازے رکھتا جو (بلند ہونے کی بجائے) زمین سے ملے ہوتے، ایک دروازہ مشرقی ہوتا، جس سے لوگ داخل ہوتے اور ایک مغربی ہوتا، جس سے لوگ نکل جاتے اور حطیم کی چھ ہاتھ چھوڑی ہوئی جگہ کو کعبہ کی عمارت میں داخل کر دیتا، کیونکہ قریشیوں نے جب کعبہ کی تعمیر کی تھی تو انہوں نے (اخراجات کی کمی کے باعث اصل عمارت) میں کمی کر دی تھی۔ (عائشہ!) اگر میرے بعد تیری قوم والے دوبارہ اس کی تعمیر کرنا چاہیں تو آؤ میں تمہارے لیے چھوڑی ہوئی جگہ کی نشاندہی کر دیتا ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سات ہاتھ کے لگ بھگ جگہ دکھائی۔ ایک روایت میں ہے: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے (کعبہ کی ایک طرف کے) گھیرے یا حطیم کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آیا یہ بیت اللہ کا حصہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا: تو پھر (قریشیوں نے) اس کو (عمارت میں) داخل کیوں نہیں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری قوم کے لیے اخراجات کم پڑ گئے تھے۔“ میں نے کہا: بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری قوم (قریش) نے (جان بوجھ کر) ایسے کیا، تاکہ اپنی مرضی کے مطابق بعض لوگوں کو داخل کریں اور مرضی کے مطابق بعض لوگوں کو روک لیں۔“ ایک روایت میں ہے: انہوں نے ایسا اپنی طاقت (اور فخر) کی بنا پر کیا تاکہ وہی داخل ہو سکے، جس کے بارے میں ان کا ارادہ ہو۔ (جس آدمی کے داخلے کے بارے میں اس کی مرضی نہیں ہوتی تھی تو) وہ اسے چھوڑ دیتے، وہ داخل ہونے کے لیے سیڑھیاں چڑھتا، لیکن جب داخل ہونے لگتا تو وہ اسے دھکا دے دیتے اور وہ گر جاتا تھا۔ اگر تیری قوم کا عہد، زمانہ جاہلیت کے قریب قریب نہ ہونا، تو تو دیکھتی کہ میں حطیم کو بیت اللہ کی عمارت میں داخل کر دیتا اور دروازے کو زمین کے ساتھ ملا دیتا، لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ان لوگوں کے دل اس کو اجنبی اور عجیب سمجھنے لگیں گے۔“ جب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حکمران بنے تو انہوں نے کعبہ کی عمارت کو گرا دیا اور اس کے دو دروازے رکھ دیے۔ ایک روایت! میں ہے: یہی حدیث تھی، جس نے ابن زبیر کو کعبہ کی عمارت گرانے پر آمادہ کیا۔ یزید بن رومان کہتے ہیں: جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا نے عمارت کو گرا کر تعمیر کیا اور حطیم کو اس میں داخل کیا، تو میں بھی موجود تھا، میں نے ابراہیم علیہ السلام کی رکھی ہوئی بنیاد دیکھی، اونٹوں کی کوہانوں کی طرح کے (بڑے بڑے) پتھر تھے، جو باہم جڑے ہوئے، (مستحکم) اور ایک دوسرے میں پیوست تھے۔
|